قادیان میں جشن مسرت
’’۱۳؍تاریخ جس وقت جرمنی کے شرائط منظور کر لینے اور التوائے جنگ کے کاغذ پر دستخط ہو جانے کی اطلاع قادیان پہنچی تو خوشی اور انبساط کی ایک لہر برقی سرعت کے ساتھ تمام لوگوں کے قلوب میں سرایت کر گئی اور جس نے اس خبر کو سنا نہایت شاداں وفرحاں ہوا۔ دونوں سکولوں انجمن ترقی اسلام اور صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر میں تعطیل کر دی گئی۔ بعد نماز عصر مسجد مبارک میں ایک جلسہ ہوا۔ جس میں مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے تقریر کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی طرف سے گورنمنٹ برطانیہ کی فتح ونصرت پر دلی خوشی کا اظہار کیا اور اس فتح کو جماعت احمدیہ کے اغراض ومقاصد کے لئے نہایت فائدہ بخش بتایا۔
حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اﷲ کی طرف سے مبارک باد کے تار بھیجے گئے اور حضور نے پانچ سو روپے اظہار مسرت کے طور پر ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر گورداسپور کی خدمت میں بھجوایا کہ آپ جہاں پسند فرمائیں۔ خرچ کریں۔ پیشتر ازیں چند روز ہوئے کہ ٹرکی اور… کے ہتھیار ڈالنے کی خوشی میں حضور نے پانچ ہزار روپے جنگی اغراض کے لئے ڈپٹی کمشنر صاحب کی خدمت میں بھجوایا تھا۔‘‘ (الفضل سرورق ج۶ نمبر۳۷ ص۱، ۱۶؍نومبر۱۹۱۸ئ)
ارباب بصیرت میں سے کوئی یوں نہ سمجھ لے کہ یہ جشن، جشن نوروز تھا کہ اس میں سب نے رنگ کھیلا اور ارباب غرض سب ہی شامل ہوئے۔ نہیں یہ بات نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی سیاست کا اس شجر خبیثہ کے ساتھ خاص پیوند ہے۔ اسی لئے ان کی ریشہ دوانیاں اسلام کی جڑ پر کلہاڑا ثابت ہورہی ہیں۔ اسلام میں فرقے بے شک ہیں۔ لیکن مرزائیت گلشن اسلام کے لئے ’’امربیل‘‘ ہے۔ جو کوئی دشمن راہ جاتے ہمارے ہرے بھرے باغ میں پھینک گیا ہے۔ یاد رکھو جوں جوں یہ بیل بڑھے گی۔ توں توں اسلام کمزور ہوگا۔
مرزا محمود کا اعلان ضروری
’’ایک بات جس کا فوراً آپ لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس وقت کہنی چاہتا ہوں