اور وہ یہ کہ سلسلہ احمدیہ کا گورنمنٹ برطانیہ سے جو تعلق ہے۔ وہ باقی تمام جماعتوں سے نرالا ہے۔ ہمارے حالات ہی اس قسم کے ہیں کہ گورنمنٹ اور ہمارے فوائد ایک ہوئے ہیں۔ گورنمنٹ برطانیہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی آگے قدم بڑھانے کا موقعہ ہے اور اس کو خدانخواستہ اگر کوئی نقصان پہنچے تو اس صدمہ سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اس لئے شریعت اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کے ماتحت اور خود اپنے فوائد کی حفاظت کے لئے اس وقت جب کہ جنگ وجدل جاری ہے۔ ہماری جماعت کافرض ہے کہ وہ ہر ممکن طریق سے گورنمنٹ کی مدد کرے۔‘‘ (الفضل ج۶ نمبر۸ ص۱، ۲۷؍جولائی ۱۹۱۸ئ)
کون نہیں جانتا کہ انگریز کا نزلہ مسلمان کے عضو ضعیف پر گرتا ہے۔ اس لئے مرزا للکار کر کہتا ہے کہ سرکار کا سایہ ہر جگہ پڑنے دو جہاں سرکار جائے گی۔ وہاں اس کا خود کاشتہ پودا جائے گا۔ اس پودے کی نگہبانی کے لئے انگریزی مالی کی تمنا رہتی ہے۔ باوا اپنی تمناؤں میں مرگیا۔ بیٹا اپنی خواہشوں پر بسر اوقات کر رہا ہے۔ ایک عاقبت نااندیش مسلمان ہے کہ دشمن کی چھری اپنے گلے پر پھیر رہا ہے۔
انگریزوں کی فتح ہماری فتح ہے
’’جماعت احمدیہ کے لئے نہایت خوشی کا مقام ہے کہ جنگ میں انگریزوں کی سلطنت فاتح ہوئی اور اس خوشی کی پہلی وجہ یہ ہے کہ انگریزوں کی قوم ہماری محسن ہے اور اس کی فتح ہماری فتح ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے مسیح علیہ السلام کی دعا نہایت زبردست رنگ میں قبول ہوئی اور صحابہ کی طرح یومئذ یفرح المؤمنون بنصر اﷲ کا انعام ہمیں عطاء ہوا۔‘‘
(ریویو ج۱۷ نمبر۱۲ ص۴۶۱، دسمبر ۱۹۱۸ئ)
کون بداندیش ہے جو اپنوں کو بیگانہ کہے۔مگر ہر بیگانہ کو اپنا جان لینا دنیاؤ دین کا خطرہ ہے۔ ممکن ہے تمہاری مصلحت شناس عقل میری معروضات کو پائے استحقار سے ٹھکرائے۔ لیکن کسی کی مصلحت مرزائی کی اسلام دشمنی کو کم نہ کر سکے گی۔ وہ بدستور سقوط بغداد پر چراغاں کرے گا اور مسلمانوں کے ہاتھوں بیت المقدس نکل جانے پر جشن منائے گا۔