کوئی صاحب عقل ایک بد عقل کے پاس سے گذرا۔ دیکھا کہ وہ قیمتی جواہرات کو گھر کے باہر پھینک رہا ہے اور کوئلوں کو سات پردوں میں چھپا کر احتیاط سے الماری میں بند کر رہا ہے۔ عقل مند کا دل اس کی حماقت کو دیکھ کر پسیج گیا۔ بولا عقل کے اندھے ان لعل وجواہر کو سمیٹ ان میں سے ایک ایک درّشا ہوارہے ۔ تیرے آباؤ اجداد نے خون پسینہ ایک کر کے یہ دولت جمع کی ہوگی۔ تجھ سے زیادہ بدعقل اور پراز حماقت اور کون۔ جو…
صاحب ہوش کی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ وہ عقل سے عاری پلٹ کر بولا۔ اے صاحب علم وعقل، مجھ بدعقل کی پھبتی نہ اڑا۔ بد عقلی اور حماقت کے بھی مدارج ہیں۔ بے عقل مقدسین میں ان کا درجہ مجھ سے بلند ہے۔ جو قادیان کی چولی کو مکہ کے دامن سے باندھنا چاہتے ہیں اور پنجاب کی اکثریت کے موہوم خطرہ کی بنا پر قادیانیوں کا سرسینے سے لگا کر اسلام اور دنیائے اسلام کے متعلق ان کے خوفناک ارادوں کو بھول جاتے ہیں۔
عبرت مسلمانوں کے حال پر خون کے آنسو کیوں نہ رووے۔ جن کی مؤمنا نہ فراست سلب کر لی گئی اور کھوٹے کھرے کی پہچان ان سے چھین لی گئی۔ وہ دوست جو کل اسلامی سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجتے دیکھ کر بے تاب ہوگئے تھے اور حکومت کے غصہ کا شکار ہوکر پابند سلاسل کر دئیے گئے تھے۔ آج وہی قادیانی اتحاد کے علمبردار بن گئے۔ ان کے کفریہ عقائد کو قابل صد نفرت قرار دینے کے باوجود اس شجر خبیثہ کو بارآور کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔ حالانکہ مرزائی سیاسی طور سے اسلام کا سب سے بڑا حریف ہے اور انہیں ان دولتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ جن کا قصر وسطوت اسلامی سلطنوں کے کھنڈرات پر تعمیر ہوا ہے۔ جنگ فرنگ کا وہ الم آفرین زمانہ جب دامان خلافت تارتار ہوکر اسلامی عظمت کا علم سرنگوں ہورہا تھا اور صلیب، ہلال کے خلاف کامیاب جنگ کر کے صدیوں کے بعد بیت المقدس واپس لینے میں مصروف تھی اور مشرق ومغرب میں ہر اسلامی گھر غم کدہ بنا ہوا تھا۔ عین اس زمانہ میں مرزائیت اسلام کی شکست پر اپنے مرکز قادیان میں جشن شادمانی منارہی تھی۔