سے بڑا جہاد ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص مرزائیوں کی اسلام کی خلاف گہری منصوبہ بازی سے ناواقف ہو تو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
مرزائیوں کے مرکز قادیان میں ان کی سیاسی اخلاق کا نظارہ دیکھو۔ برسوں سے مسلمانوں کو بدترین مصیبتوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ محمد رسول اﷲﷺ کی نبوت میں مرزاغلام احمد قادیانی کو ساجھی نہ کرنے کے جرم میں اراضی سے بے دخل کر دیا جاتاہے۔ غریب مسلمانوں کا کوئی سانس خطرے سے خالی نہیں جاتا۔ لاہور میں بیٹھ کر مرزائیوں کو امن پسندی کی سند کوئی عطاء کرتا رہے۔ مگر انگریزی عدالت کا فیصلہ شاہد عادل ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل دوسروں سے منوانے اور اپنی جماعت کو ترقی دینے کے لئے ایسے حربوں کا استعمال شروع کیا۔ جنہیں ناپسندیدہ کہاجائے گا۔ جن لوگوں نے قادیانیوں کی جماعت میں شامل ہونے سے انکار کیا۔ انہیں مقاطعہ قادیان سے اخراج اور بعض اوقات اس سے بھی مکروہ تر مصائب کی دھمکیاں دے دے کر دہشت انگیزی کی فضا پیدا کی۔ بلکہ بسا اوقات انہوں نے ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا کر اپنی جماعت کے استحکام کی کوشش کی۔ (فیصلہ مسٹر کھوسلہ)
خدا بہتر جانتا ہے کہ واقعات کے اظہار میں تنکے کے برابر مبالغہ نہیں کیاگیا۔ ایسے بے فیض گروہ سے فیض کی امید اور ان سے دوستی کی توقع آزمائے ہوئے کو آزما کر ذلت کا منہ دیکھنا ہے۔ ان نوشتی اور المناک شورہ پشتی کی داستان مباہلہ والوں سے پوچھو۔ شہید محمد حسین کے پسماندگاں سے دریافت کرو۔ مسلمانوں کی جان پر چھریاں چلانے والوں کو اخبار کے دفتر میں قلم چلاکر بری الذمہ نہیں کیا جاسکتا۔ مجلس احرار کی قادیان کے مخالف سرگرمیوں پر کوئی کتنی پھبتیاں اڑائے۔ لیکن مجلس احرار موجودہ مرزا کی تعلی کو بھول نہیں سکتی کہ جب اس نے برملا کہا۔
’’قادیان میں ایک غیر احمدی کا وجود اس کے لئے باعث تردد ہے۔‘‘ اس کے ساتھ کوئی شوق سے محبت کی پینگیں بڑھائے۔ مگر کسی ایک شخص کی راہ ورسم مرزائیوں کے خطرناک عزائم کو روک نہیں سکتی۔