دیا جانا تھا دیا جاچکا۔ اس کے علاوہ اڑھائی کروڑ کی آبادی میں پچاس ہزار مرزائیوں کو پاسنگ موجودہ توازن کو آئندہ بھی بدلنے کے ناقابل ہے۔ اگر آپ کے نزدیک مرزائی ہی حل المشکلات ہیں تو یہ سہاگ دودن کا مہمان ہے۔ کیا اعتبار کہ یہ میٹھی چھری کلیجے سے لگ کر کب جدا ہو جائے۔
مرزائیت سے اتحاد کے متمنی مسلمان اس حقیقت کبریٰ کو کیوں نظر انداز کردیتے ہیں کہ اس مذہب کی بنیاد افتراق پر ہے۔ حضورﷺ سرور کائنات نے خدا سے حکم پاکر ختم نبوت کا دعویٰ کیا۔ تاکہ آئندہ ملت اسلامیہ مختلف نبیوں کے دعوؤں کی بناء پر تقسیم در تقسیم ہونے سے بچ رہے اور ہر مسلمان کو مبلغ قرار دیا۔ تاکہ باقی مذاہب کے پیرو بتدریج اسلام قبول کر کے لوائے محمدی کے نتیجے جمع ہو جائیں۔ کون نہیں جانتا کہ ملک اور مذہب کی حد بندیوں کے علاوہ اختلاف مذہب سب سے بڑی حد بندی ہے۔ جو نسل انسانی کی تفریق کا باعث ہے۔ مذہبی حد بندی مختلف نبیوں اور رسولوں کی پیروی کی بناء پر ہے۔ قادیانی مذہب کا دعویٰ درحقیقت تاج مصطفویﷺ پر ہاتھ ڈالنے کا چور دروازہ ہے۔ تعجب ہے کہ فرزندان اسلام اس اسلامی ہتک کو تو خوشی سے برداشت کر لیں اور فتنہ پر دار کو اسلامی شیرازہ بکھیرنے کی کھلی اجازت دیں۔ لیکن پنجاب کی اکثریت کے موہوم خطرے سے بے تاب ہو جائیں۔ خدا حکم فرمائے محمد رسول اﷲﷺ تمام انسان کے لئے کافی ہیں۔ غضب خدا کا مرزاقادیانی درمیان سے ہانک لگا دے کہ ؎منم مسیح زماں ومنم کلیم خدا
منم محمد واحمد کہ مجتبیٰ باشد
(تریاق القلوب ص۳، خزائن ج۱۵ ص۱۳۴)
مرزاغلام احمد قادیانی کی ایسی جسارت پر احتجاج کرنے کی بجائے خود آنکھیں نیچی کر لی جائیں۔ مبادا ان کے دل تمہارے اقدام سے مجروح ہو جائیں۔ وہ ملت اسلامیہ کو نقصان پہنچائیں۔ سرور عالم محمد رسول اﷲﷺ کے منہ آئیں۔ بالکل معاف مگر پنجاب میں تمہاری اکثریت کو موہوم خطرہ لاحق نہ ہو جائے۔ اگر مذہب کی ذلت اور ملت کی بربادی کو خاطر میں نہ لاکر مرزائیوں کو ساتھ ملانے پر کسی کو اصرار ہے تو مجلس احرار کا ایسی قوتوں سے مقابلہ کرتے رہنا سب