بسم اﷲ الرحمن الرحیم! دہقان کی حسرتناک سادہ لوحی پر خون خون کے آنسو نہ بہائے۔ جو کھیت کی جھاڑ بوٹیوں کو اپنی محنت کا حاصل اور قابل ذخیرہ جنس قرار دے لے اس مسلمان کی بدعقلی اور حماقت اس سے زیادہ کیا ہے۔ جو مرزائیوں جیسی اسلام دشمن جماعت کو اپنا قوت بازو سمجھ لے کسی کی ریاکاری سے انسان فریب کھاسکتا ہے۔ لیکن اسلام کی بیخ کنی کے کھلے عزائم رکھنے والی جماعت کو سینہ سے لگائے رکھنا، سانپوں کو آستینوں میں پرورش کرنے کے برابر ہے۔ مرزائی کو اسلام دوست سمجھنا دھوکہ کھاجانے کی بات نہیں۔ بلکہ حقائق کو اپنی ہٹ دھرمی پر قربان کرنا ہے میں مانتا ہوں کہ مجھے مذہبی علوم پر عبور نہیں۔ مگر مذہب کے علمبرداران کی دیں دشمنی سے نالاں ہیں اور وہ کون سا مسلمان ہے جس سے ان کی دشمنی نہیں۔ ہمارے معاصر ان کو لاکھ اپناؤ۔ مگر ان کا فتویٰ یہی رہے گا۔
’’ساری دنیا ہماری دشمن ہے۔ بعض لوگ جب ان کو ہم سے مطلب ہوتا ہے تو ہمیں شاباش کہتے ہیں۔ جس سے بعض احمدی یہ خیال کرلیتے ہیں کہ وہ ہمارے دوست ہیں۔ حالانکہ جب تک ایک شخص خواہ وہ ہم سے کتنی ہمدردی کرنے والا ہو۔ پورے طور پر احمدی نہیں ہوجاتا۔ ہمارا دشمن ہے۔‘‘ (تقریر خلیفہ قادیانی ۲۵؍اپریل ۱۹۳۰ئ)
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اسلامی دنیا میں کوئی دین کا عالم ایسا نہیں جو سانپوں کو دودھ پلانے کا فتویٰ دے سکے۔ البتہ بعض سیاسین مذہب جن کے نزدیک مذاق ہے۔ سعی لا حاصل میں مصروف ہیں کہ مرزائی کو سیاسی مسلمان سمجھ لیا جائے۔ حالانکہ یہ گردہ اسلام کا شدید مخالف ہے تو اسلامی سیاست کا شدید ترین دشمن ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مرزائیوں کے دوست دار لیڈروں کے پیش نظر اسلامی سیاست نہیں۔ بلکہ پنجابی سیاست ہے۔ وہ پنجاب میں کسی قیمت پر اپنے وہم کا اطمینان چاہتے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ وہ پنجاب کے پانیوں میںڈوب رہے ہیں۔ اس لئے بچھو کو تنکا سمجھ کر سہارے کے لئے ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہیں وہ تنکا سہارا بھی نہ دے گا۔ بلکہ اپنی مقتضیات سے باز نہ آئے گا۔ اوّل تو پنجاب کے سیاسی فارمولا کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ حکومت نے تقسیم کے دوگروہ تسلیم کئے ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم۔ مسلم کو جو ملنا تھا مل چکا غیر مسلم کو جو