کہ آنحضرتﷺ تمام قوموں اور تمام زمانوں کے لئے آفتاب ہدایت ہیں تو اس آفتاب کے سامنے مرزائی نبوت کا دیا جلانا بیشک بے عقلی کی بات ہے۔ اسلام کا یہ دعویٰ کہ وہ تمام آنے والی نسلوں اور زمانے کی ضرورتوں کا کفیل ہے اور قرآن پر مسلمانوں اور قادیانیوں کا مشترکہ یقین کہ اس کے مخاطب تمام قومیں، تمام نسلیں اور تمام آنے والا زمانہ ہے۔ اس اعتقاد کو ختم کردیتا ہے کہ نبوت کا باب بدستور کھلا ہے۔ کاش! مرزائی اتنی موٹی بات کو سمجھیں کہ جب حضرت محمدرسول اﷲﷺ کی شان یہ ہے کہ وہ تمام ملکوں اور قوموں کے لئے مشعل ہدایت ہیں اور قرآن تا قیامت مومنین کی جان کا نور رہے گا تو باب نبوت کا وا سمجھنا سوائے فتنہ کے دروازہ کھولنے کے اور کیا مطلب رکھتا ہے۔
عزیزو! اس سچی بات پر یقین رکھو کہ اسلام تمام قوموں، تمام ملکوں اور تمام زمانوں کے لئے بہترین دستور عمل ہے۔ اس لئے اس پیغام کو لانے والا تمام قوموں اور ملکوں کے لئے واجب التسلیم پیغمبر ہے۔ عقل انسانی اور ضرورت زمانہ کو تو اب اس بات پر اصرار ہے کہ قومیں نئے نئے نبیوں کے دعوئوں کی بنا پر گرہوں میں تقسیم نہ ہوں۔ دنیا کا ایک ہی مشترکہ مذہب ہو جو امن وسلامتی اور بنی نوع انسان کے اتحاد کا ضامن ہو۔ یہ مذہب اسلام ہے۔ اس کو لانے والے کے فیض کو تمام زمانوں کے لئے کافی قرار دیا جائے۔
میری بحث کے تین جزو ہیں
اوّل…
رسول کریمﷺ سے پہلے جس قدر نبی مبعوث ہوئے وہ خاص خاص قوموں اور خاص خاص ملکوں کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ ان کا فیض عام نہ تھا۔ یہ حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی ذات تھی جو رحمتہ اللعالمین کہلائے اور تمام دنیا کے لئے ہادی قرار پائے۔ اس دعویٰ کی بنا پر عقل کو تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کسی نبوت کی ضرورت نہیں رہتی۔