ہے کہ اب زمانے کے حالات اتنے بدل چکے ہیں کہ لوگ یوں بھی اختلاف مذہب کی بنا پر ایک دوسرے کو جہنمی قرار دینے کو ناپسند کرتے ہیں۔ گویا زمانہ نئے نئے نبیوں کے دعوئوں کی بنا پر گروہ در گروہ تقسیم ہونے سے بالکل انکار پر آمادہ ہے۔ اب زمانے کی سپرٹ کو ’’لانبی بعدی‘‘ کے ارشاد اور ’’اکملت لکم دینکم‘‘ کے ربانی حکم کو ملاکر پڑھو تو منشائے ایزدی صاف معلوم ہوجاتا ہے۔ آنحضرتﷺ کے ظہور اور ان پر دین کی تکمیل سے اس زمانہ کی سپرٹ اور ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ کے علم میں اس زمانے کے حالات اور اس زمانے کے انسانوں کی سپرٹ پورے طور سے موجود تھی۔ یا یوں کہو کہ آنحضرتﷺ کے بعد اﷲ تبارک وتعالیٰ نے تمام دنیا کے لوگوں میں خود بخود یہ سپرٹ پیدا کردی کہ اب تمام دنیا ایک ہی پیغام اور ایک ہی پیغامبر کے تابع ہوجائے۔
ادھر تکمیل دین کی آیت تری۔ ’’لانبی بعدی‘‘ سے آنحضرتﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی۔ ساتھ ہی آنے والے زمانے کی سپرٹ نے ’’لانبی بعدی‘‘ اور ’’اکملت لکم دینکم‘‘ کی تصدیق کردی۔ مرزائی احباب کہتے ہیں کہ باب نبوت بند ہونے کے دعویٰ کے یہ معنی ہیں کہ اﷲ کی رحمت کا دروازہ بند ہوگیا۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ لوگوں کو رشد وہدایت کے لئے نبیوں کا ظہور تاقیامت ضروری ہے۔ دیکھو سلامتی کے مذہب یعنی دین اسلام میں ایک حد تک اس ضرورت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یعنی مجددوں کے آنے کا اقرار موجود ہے۔ مگر مرزا قادیانی اس کے بھی مصداق نہیں ہیں۔ لیکن کسی ایسے نبی کے آنے کا انکار ہے جس کے دعویٰ کی بنا پر اس کے نہ ماننے والے لوگ قابل مواخذہ سمجھے جائیں گے۔
غور کرو کہ بنی نوع انسان کے لئے اسلام کی پیش کردہ صورت باعث رحمت ہے یا مرزائیوں کا مذہبی دعویٰ دنیا کے لئے بہتر ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی یا اسی قسم کے بعد کے