ابھرے۔ خاندانی خدمات کے باعث انگریزوں نے ان کا ہاتھ تھاما۔ یہ گمنامی کی سطح سے اونچے اٹھے۔ پہلی دفعہ پولیس کمیٹی کے ممبر بنائے گئے۔ پھر سائمن کمیشن کی تعاونی کمیٹی کے صدر بنے۔ اس صدارت میں راجہ نریندر ناتھ لیڈر ہندو پارٹی کے اثرورسوخ نے بڑا کام کیا۔ پنجاب کے ہندوؤں کو میاں صاحب کے مقابلے میں مہرہ درکار تھا۔ سر سکندر بھی انہیں پوری پوری امید اور حوصلہ دیتے رہے۔ ہندو ان سے خوش، یہ ہندوؤں سے راضی، راضی خوشی دونوں آنے والے دور کے دن گننے لگے۔ وہ ایگزیکٹو کونسلر اسی خوبی کے باعث بنائے گئے کہ برخلاف میاں صاحب کے ہندو پارٹی کو آپ پر اعتماد تھا۔ سرسکندر کی یہی خوبی ان کی گورنری کا باعث ہوئی۔
میاں سرفضل حسین اگرچہ انگریزی سیاسیات کی کل کا بہترین پرزہ تھے۔ لیکن انہیں اپنی لیاقت اور کامیاب سیاسی چالوں پر اتنا ناز تھا کہ وہ انگریز افسران کی نازبرداری کے بجائے ان سے خوشامد کی توقع رکھتے تھے۔ انگریز اعلیٰ افسران سے ان کا رات دن کارگڑا جھگڑا تھا اور ہر مرحلے پر من مانی منواتے تھے اور خود کسی کی نہ مانتے تھے۔ اس لئے انگریز حکام جہاں ان کے کانگریس کے مقابلے میں کامیاب سیاسی ہتھکنڈوں کے معترف تھے۔ وہاں ان کی محکمانہ دراز دستیوں کے شاکی تھے۔ میاں صاحب کئی انگریز اعلیٰ افسروں کو ذلیل کر کے نکال چکے تھے۔ جس کو ذرا سرکش پاتے تھے۔ اس کی سرکوبی پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ میاں صاحب کی یہ ادا انگریز کو نہ بھاتی تھی۔ برخلاف اس کے سرسکندر حیات خاں انگریزوں کے معاملہ میں ایسی مروت برتتے تھے کہ حاکم ہوکر محکوم نظر آتے تھے۔ انگریزی حسیات کے احترام میں وہ ہندوستانی یا اسلامی حقوق کے لئے بلند بانگ نہ تھے۔ مطالبات کے بجائے عرضداشتوں کے قائل تھے۔ مبادا انگریز کا مزاج برہم ہو جائے اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔ ظاہر ہے کہ میاں صاحب کے مقابلہ میں احرار کو سرسکندر حیات سے کوئی دل بستگی نہ تھی۔ مگر مصیبت یہ آئی کہ میاں صاحب نے سرسکندر حیات کے مقابلہ میں مرکزی حکومت میں اپنا اقتدار رکھنے کے لئے ظفر اﷲ خاں قادیانی کوبڑھایا اور مسلمانوں کے جذبات کو پامال کر کے سیاسیات میں اپنا الو سیدھا کرنا چاہا۔ انہوں نے اس مسئلے کی اہمیت کو نہ سمجھا اور نہ احرار کی قوت کا ابتداء میں پورا اندازہ کیا۔ لیکن جب طوفان مخالفت بڑھ گیا تو احرار کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے لئے اور کامیاب تدبیریں کیں۔ بے شک ان تدبیروں سے احرار کمزور ہوگئے۔ لیکن میاں صاحب کے اثر ورسوخ کو بھی ایسا دھکا لگا کہ وہ پھر سنبھل نہ سکے اور ان کا اپنے ہی غلط عمل سے دل