آنکھوں میں جگہ نہ دیتے تھے۔ کشمیر کمیٹی کے صدر مرزابشیرالدین تھے۔ وہ ضرور ممبر ہوگئے تھے۔ لیکن یہ کیفیت اضطراری تھی۔ وہ فوراً سنبھل کر کشمیر کمیٹی کی تخریب میں لگ گئے اور احرار کی تنظیم کی ہر طرح حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ عرف عامہ میں ان کے مرزائی شکن بیانات نے تعلیم یافتہ طبقے پر گہرا اثر کیا اور ہوا کا رخ بالکل ادھر سے ادھر پھر گیا۔ مرزاسرظفر علی سابق جج پنجاب ہائی کورٹ معاملات دین میں پڑے تھے۔ انہوں نے اپنے اعلان میں خدا لگتی بات کہی کہ نبوتوں کی بناء پر قومیں الگ الگ شمار ہوتی ہیں۔ جب مرزائیوں نے اپنا نیا نبی مان لیا تو وہ لازمی طور سے مسلمانوں سے الگ ہوگئے۔ غرض مرزائیوں کے لئے دنیا تنگ ہوگئی۔ مولانا ثناء اﷲ اور مولانا ظفر علی خان نے مرزائیت کے خلاف ضرور محاذ قائم کیا۔ ان کا سب کو ممنون ہونا چاہئے۔ مگر وہ سوسنار کی تھیں۔ اب لوہار کی پڑنے لگیں تو مرزائی بوکھلا گئے۔ ملاّٰں کی دوڑ مسجد تک اور مرزائیوں کی دوڑ انگریزی سرکار تک، جوں جوں عوام کی ہمدردیاں احرار سے زیادہ ہوتی جاتی تھیں۔ توں توں سرکار اور احرار کے تعلقات اور کشیدہ ہوتے جاتے تھے۔
جناب الیاس برنی کی مرزائی قلعے پر گولہ باری کے سلسلے میں خدمات کا اعتراف نہ کرنا ناشکرگزاری ہوگی۔ انہوں نے قادیانی مذہب شائع کر کے قادیانی مرزائیوں کے بدنما چہرہ سے ریاء کاری کا نقاب بالکل ہی الٹ دیا ہے۔ کتاب کی ترتیب میں اپنی رائے سے متأثر کرنے کی ذرہ بھر کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ مرزائیوں کی مستند کتابوں کے حوالہ جات ہی کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ کتاب ردمرزائیت کا کارگر نسخہ بن گئی ہے۔ جو طرز اس کتاب میں برنی صاحب نے اختیار کیا وہ بالکل اچھوتا ہے اور ایسا دل نشین ہے کہ ہزاروں مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے کا باعث ہوا۔ غرض مرزائیت کی بیخ کنی کے بہت سے اسباب فراہم ہوگئے۔ من جملہ ان کے مولانا عبدالکریم مباہلہ کی احرار میں شمولیت تھی۔ یہ کفر کے آسمان کا ٹوٹا ہوا ستارہ قادیانیوں کے جراثیم سے مسلمانوں کو محفوظ کرنے کے کام آرہا تھا۔ مولوی عبدالکریم رازدار خلافت تھا۔ خلیفہ مرزابشیرالدین محمود کی بدعنوانیوں کو دیکھ کر قادیانی مذہب سے برگشتہ ہوا۔ قادیان سے جان بچا کر بھاگا۔ اس بھاگ دوڑ میں حاجی محمد حسین صاحب ساکن بٹالہ مرزابشیرالدین کے ایک مرید کے ہاتھوں شہید ہوگئے اور مولانا عبدالکریم بچ نکلے۔ مولانا موصوف نے عدالت میں حلفی بیان دیا کہ وہ خود آخر تک مخلص تھے۔ لیکن بعض دوسرے لوگوں سے الزامات انہوں نے سنے اور تحقیق کر کے انہیں سچاپایا۔ اس وجہ سے الگ ہوگئے۔ مولانا کے سارے خاندان نے قادیانیوں کے ہاتھوں سخت تکالیف اٹھائیں۔