ہونے سے انکار کیا۔ انہیں مقاطلۂ قادیان سے اخراج اور بعض اوقات اس سے بھی مکروہ تر مصائب کی دھمکیاں دے کر دہشت انگیزی کی فضا پیدا کی۔ بلکہ بسااوقات انہوں نے ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا کر اپنی جماعت کے استحکام کی کوشش کی۔ قادیان میں رضاکاروں کا ایک دستہ (والنٹیر کور) مرتب ہوا اور اس کی ترتیب کا مقصد غالباً یہ تھا کہ قادیان میں ’’لمن الملک الیوم‘‘ کا نعرہ بلند کرنے کے لئے طاقت پیدا ہو جائے۔ انہوں نے عدالتی اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت کی۔ دیوانی مقدمات میں ڈگریاں صادر کیں اور ان کی تعمیل کرائی گئی۔ کئی اشخاص کو قادیان سے نکالا گیا۔ یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ قادیانیوں کے خلاف کھلے طور پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے مکانوں کو تباہ کیا۔ جلایا اور قتل تک کے مرتکب ہوئے۔ اس خیال سے کہ کہیں ان الزامات کو احرار کے تخیل ہی کا نتیجہ نہ سمجھ لیا جائے۔ میں چند ایسی مثالیں بیان کردینا چاہتا ہوں۔ جو مقدمہ کی مسل میں درج ہیں۔
سزائے اخراج
کم ازکم دو اشخاص کو قادیان سے اخراج کی سزا دی گئی۔ اس لئے کہ ان کے عقائد مرزاقادیانی کے عقائد سے متفاوت تھے۔ وہ اشخاص حبیب الرحمن گواہ صفائی نمبر۲۸ اور مسمّٰی اسماعیل ہیں۔ مسل میں ایک چٹھی (ڈی۔زیڈ ۳۳) موجود ہے۔ جو موجودہ مرزا (مرزا محمود قادیانی) کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور جس میں یہ حکم درج ہے کہ حبیب الرحمن (گواہ نمبر۲۸) کو قادیان میں آنے کی اجازت نہیں۔ مرزابشیرالدین گواہ صفائی نمبر۳۷ نے اس چٹھی کو تسلیم کر لیا ہے۔ کئی اور گواہوں نے (قادیانیوں کے) تشدد وظلم کی عجیب وغریب داستانیں بیان کی ہیں۔ بھگت سنگھ گواہ صفائی نے بیان کیا ہے کہ قادیانیوں نے اس پر حملہ کیا۔ ایک شخص مسمّٰی غریب شاہ کو قادیانیوں نے زدوکوب کیا۔ لیکن جب اس نے عدالت میں استغاثہ کرنا چاہا تو کوئی اس کی شہادت دینے کے لئے سامنے نہ آیا۔ قادیانی ججوں کے فیصلہ کردہ مقدمات کی مسلیں پیش کی گئی ہیں۔ (جو شامل مسل ہذا ہیں) مرزابشیرالدین محمود نے تسلیم کیا ہے کہ قادیان میں عدالتی اختیارات استعمال ہوتے ہیں اور میری عدالت سب سے آخری عدالت اپیل ہے۔ عدالت کی ڈگریوں کا اجراء عمل میں آتا ہے اور ایک واقعہ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ڈگری کے اجراء میں ایک مکان فروخت کردیا گیا۔ اسٹامپ کے کاغذ قادیانیوں نے خود بنارکھے ہیں جو ان درخواستوں اور