بھی نہ تھا کہ ہم میں ایسے ثبوت مہیا کرنے کی صلاحیت ہے۔ ہم نے اس مقدمہ میں مرزائیت کے مذہب واعتقاد پر بحث نہیں کی۔ بلکہ مرزائیت کے ان اعمال کو پیش کیا۔ جس سے ابتدائی عدالت بھی متأثر ہوئی۔ اگرچہ اس نے سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کو چھ ماہ کی سزا دے دی۔ تاہم سننے والی پبلک پر گہرا اثر ہوا۔ سب کو یقین تھا کہ شہادت صفائی ایسی مضبوط ہے کہ یہ سزا بحال نہیں رہ سکتی۔ لیکن مرزائی ہیں کہ شاہ صاحب کی سزا یابی پر پھولے نہ سماتے تھے۔ ان کے گھر میں گھی کے چراغ جلائے گئے۔ لیکن سیشن جج مسٹر کھوسلہ نے مرزائیوں کی خوشیوں کو اپنے فیصلہ اپیل میں ماتم سے بدل دیا۔ اس نے وہ تاریخی فیصلہ لکھا۔ جس سے اسے شہرت دوام حاصل ہوگئی۔ اس فیصلہ کا ہر حرف مرزائیت کی رگ جان کے لئے نشتر ہے۔ اس فیصلہ میں مسٹر کھوسلہ نے چند سطروں میں مرزائیت کی ساری اخلاقی تاریخ لکھ ڈالی۔ اس کے فیصلے کا ہر لفظ دریائے معانی ہے۔ اس کی ہر سطر مرزائیت کی سیاہ کاریوں اور ریاکاریوں کی پوری تفسیر ہے۔ مسٹر کھوسلہ کے قلم کی سیاہی مرزائیت کے لئے قدرت کا انتقام بن کر کاغذ پر پھیلی اور مرزائیت کے چہرے پر نہ مٹنے والے داغ چھوڑ گئی۔ ہر چند انہوں نے ہائی کورٹ میں سر سپرو جیسے مقنن کی معرفت چارہ جوئی کی۔ تاکہ مسٹر کھوسلہ کے فیصلے کا داغ دھویا جائے۔ مگر انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی۔مرزائی آج تک یہی سمجھتے تھے کہ قدرت ظلم نارواکا انتقام لینے سے قاصر ہے۔ مگر اس فیصلہ نے ثابت کر دیا کہ خدا کے حضور میں دیر ہے۔ اندھیر نہیں۔
اس فیصلہ کو تاریخ احرار میں خاص اہمیت حاصل رہے گی۔ دراصل یہ فیصلہ مرزائیت کی موت ثابت ہوا۔ جس غیرجانبدار نے اس کو پڑھا وہ مرزائیت کے نقش ونگار کو دیکھ کر اس سے نفرت کرنے لگا۔ علامہ سراقبال اور مرزا سرظفر علی کے بیانات نے بھی تعلیم یافتہ طبقے کے رجحان خیال کو بدل دیا۔ الیاس برنی نے ’’قادیانی مذہب‘‘ لکھ کر مرزائیت کے مقابلہ میں اسلام کی بہت بڑی خدمت انجام دی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ مسٹر کھوسلہ نے جو مرزائیت کے قلعے پر بم پھینکا۔ اس نے کفر کے اس قلعے کی بنیادیں ہلادیں۔ ان قلعہ بندیوں کو مسمار کرنے میں آسانی ہوگئی۔ جہاں چار مرزائی بیٹھے ہوں۔ ان میں مسٹر کھوسلہ کا فیصلہ پھینک دو۔ یہ بم پھینکنے کے برابر ہوگا۔ وہ سراسمیہ ہوکر بھاگ جائیں گے۔
مسٹر کھوسلے کا فیصلہ
مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے تاریخی مقدمہ میں ان کی اپیل پر مسٹر کھوسلہ سیشن جج