اﷲ کا نام لے کر کفر کے غلبے کو مٹانے کے عزم سے اس جگہ اقامت اختیار کرے اور مرزائیوں کی ریشہ دوانیوں کی نگرانی کرے؟ خدا نے مولانا عنایت اﷲ کو توفیق دی۔ وہ شادی شدہ نہ تھے۔ اس لئے جماعت کو یہ غم نہ تھا کہ ان کی شہادت کے بعد کنبہ کا بوجھ اٹھانا ہے اور بچوں کی پرورش کا سامان کرنا ہے۔
مولانا عنایت اﷲ
غرض خطرات کے ہجوم میں مولانا کو دفاع مرزائیت کا کام سپرد کیا گیا۔ دارالکفر میں اسلام کا جھنڈا گاڑنا معمولی سی اولوالعزمی نہیں تھی۔ افسوس مسلمانوں نے دنیا کے لئے زندہ رہنا سیکھ لیا ہے اور ان کے سارے تبلیغی ولولے سردپڑ گئے ہیں۔ اب جب کہ فتنۂ مرزائیت نے سراٹھالیا تو انہوں نے مصلحت اختیار کی۔ باوجودیکہ مرزائی مسلمانوںکو صریح کافر کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جنازہ تک پڑھنے کے روادار نہ تھے۔ لیکن لوگ انہیں انگریز کا سمجھ کر منہ نہ آتے تھے۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں نے تو حد کر دی تھی۔ وہ اس خانہ برانداز قوم کا تعاون حاصل کرنے کو حصول ملازمت کا ضروری مرحلہ خیال کرتے تھے۔ بہت ہیں جنہوں نے دنیا حاصل کرنے کے لئے دین کو فروخت کر دیا۔ دین فروشوں کا گروہ ہر زمانے میں موجود رہا ہے۔ قوموں کے زوال میں اس گروہ کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ مرزائی لوگ انسانی فطرت کی اس کمزوری سے پورا فائدہ اٹھاتے رہے۔ ضلع گورداسپور کے سارے حکام ان کا اس وجہ سے پانی بھرتے تھے کہ قادیانی گمراہوں کی رسائی انگریزی سرکار تک ہے۔ ضلع کے حکام کے ذریعہ عوام کو مرعوب کرنا، سرکار کا وفادار فریق بتاکر تعلیم یافتہ لوگوں کو ملازمتوں کے سبز باغ دکھانا، ان کا کام تھا۔ انگریزی سلطنت کی مضبوطی کو دیکھ کر اور سرکار سے مرزائیوں کا گٹھ جوڑ دیکھ کر کسی تبلیغی جماعت کا حوصلہ نہ تھا کہ وہ خم ٹھونک کر میدان مقابلہ میں نکلتی۔ اﷲ نے احرار کو توفیق دی کہ وہ حق کا علم لے کر کفر کے مقابلے میں نکلے۔ مرزائی متعدد قتل کر چکے تھے۔ قادیان میں انہیں کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ مولانا عنایت اﷲ کو دفتر لے دیا گیا۔ قادیان میں احرارکا جھنڈا لہرانے لگا۔ سرخ جھنڈے کو دیکھ کر مرزائی روسیاہ ہوگئے۔ آہ ان کے سینوں کو توڑتی نکل گئی۔ یہ ان کی آرزوؤں کی پامالی کا دن تھا۔ مرزائیوں نے اپنی امیدوں کا جنازہ نکلتے دیکھا تو سر پیٹنے لگے۔ سرکار کی دہلیز پر سردھر کر پکارے۔ حضور، قادیان مرزائیوں کی مقدس جگہ ہے۔ احرار کے وجود سے یہ سرزمین پاک کر دی جائے۔ جب مرزائیت نصرانیت کا آسرا ڈھونڈھنے نکلی تو ہم نصرانیوں اور