مقابلہ آسان ہے۔مگر بغلی گھونسوں کا کوئی علاج نہیں۔ بجز اس کے کہ انسان ہر وقت چوکس رہے۔ ہم مرزائیوں کے بحیثیت انسان مخالف نہیں۔ نہ ان کی عزت وآبرو کے دشمن ہیں۔ البتہ ان کی مضرت سے بچنا اپنا قدرتی حق سمجھتے ہیں۔
مرزائیت میں اگر فاش خامیاں نہ بھی ہوتیں اور وہ غلط دعوؤں کا عبرت انگیز مرقع نہ بھی ہوتی تو بھی نبوت کا دعویٰ بجائے خود اسلام پر ضرب کاری اور مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کا سبب ہے۔ اس دعوے کے ساتھ ہی یہ گروہ مسلمانوں کی کڑی نگرانی کا سزاوار ہوجاتا ہے۔ پس ہم نے دیکھا کہ مرزائی لوگ
۱…
برٹش امپیریلزم کے کھلے ایجنٹ ہیں۔
۲…
وہ اعلیٰ طبقہ کا ذہن رکھتے ہیں۔ اردگرد کی غریب آبادی کا بائیکاٹ کرنا اور دوسرے ذریعوں سے انہیں مرغوب کرنا ان کا دھندا ہے۔۳…
وہ مسلمانوں میں ایک نئی گروہ بندی کے طلب گار ہیں۔ جو مسلمانوں کی جمعیت کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں بانٹ دے گی۔
۴…
وہ مسلمانوں میں بطور ففتھ کالم کام کرتے ہیں۔
اکثریت کے ارادے مخفی نہیں ہوتے۔ مگر کمزور اقلیتوں کے لئے جو اکثریت کے خلاف محاذ بنانا چاہیں۔ ضروری ہے کہ وہ اپنے ارادوں کو مخفی رکھیں۔ ان احتمالات کے پیش نظر خیال آتا تھا کہ ان مخالفین اسلام کی نگرانی ضروری ہے۔ قادیان میں مسلمان پر مظالم کی دل خراش داستان متواتر ہمارے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ مرزائی لوگ باہر سے آکر دھڑا دھڑ وہاں آباد ہو رہے تھے۔ نبی کریمﷺ پر ایمان رکھنے اور غریب ہونے کے باعث مسلمانوں پر باہر سے آئے ہوئے سرمایہ دار مرزائی عرصۂ حیات تنگ کر رہے تھے۔ یہ سب کچھ قادیانی خلیفہ کے ایماء پر ہورہا تھا۔ تمام ہندوستان کے علماء فتویٰ بازی تو کرتے تھے۔ مگر مقابلے کی جان نہ تھی۔ بٹالہ ضلع گورداسپور میں درد دل رکھنے والے مسلمانوں نے شبان المسلمین نام کی ایک جماعت بنائی۔ علماء کو اکٹھا کرتے رہے۔ سالانہ اجلاس کے اختتام پر قادیان بھی ایک دن گئے۔ ان علماء کا قادیان جانا سرکاری نبوت کے حاملوں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ دوسرے سال انہوں نے مارپیٹ کی پوری تیاری کر لی۔ چنانچہ مرزائی نوجوان بوڑھے علماء پر ٹوٹ پڑے۔ لاٹھیوں کا مینہ برسایا۔ ان کا بند توڑا۔ کس کی رپٹ، کہاں کی رپورٹ؟ تھانہ مرزائیوںکا دبیل تھا۔ دادرسی کی کیا توقع تھی؟ یہ بیچارے