’’نچلے درجے کے پولیس افسروں کی رائے یہ تھی کہ مطالبات قبول کر لینے چاہئیں۔‘‘ (رپورٹ ص۳۷۶)
سوال یہ ہے کہ ایک مطالبہ جس کو اوپر کے افسروں اور ایک قلیل التعداد دولت مند طبقے کو چھوڑ کر قوم کے تمام عناصر کی اس طرح تائید حاصل تھی۔ اگر متفقہ قومی مطالبہ نہ تھا تو پھر اور کیا تھا۱؎؟
۱؎ عدالت نے مولانا مودودی کے اس قول سے بھی ایک جگہ اپنا سا استدلال کیا ہے کہ یہ تحریک صرف پنجاب اور بہاولپور میں معروف تھی اور وہاں بھی تعلیم یافتہ طبقے کی تائید اس کو حاصل نہ تھی اور عام تائید حاصل کرنے کے لئے کافی پروپیگنڈا کی ضرورت تھی۔ اس سے عدالت یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ ان مطالبات کو اوّلاً صرف احرار کے، اواخراً علماء کے مطالبات سمجھنا چاہئے۔ (رپورٹ ص۲۹۹) لیکن اگر یہ نتیجہ اخذ کرنے میں سرسری نگاہ سے کام نہ لیا جاتا تو مولانا مودودی کا اصل مطلب سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہ تھا۔ تحریک کا پنجاب اور بہاولپور کے علاوہ دوسرے علاقوں کے عوام میں معروف یا کافی معروف نہ ہونا درحقیقت اس وجہ سے تھا کہ قادیانیت کا مسئلہ ایک دینیاتی مسئلے کی حیثیت سے چاہے پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہو۔ لیکن ایک معاشرتی ومعاشی مسئلے کی حیثیت سے وہ صرف پنجاب وبہاولپور تک محدود تھا۔ کیونکہ دوسرے علاقوں میں قادیانیت کی توسیع ابھی اس حد تک نہیں ہوئی ہے کہ عام باشندے ان پیچیدگیوں اورتلخیوں کو محسوس کریں۔ جو اس گروہ کی جڑیں پھیلنے سے مسلم معاشرے میں رونما ہوتی ہیں۔ اس لئے بنگال، سندھ اور دوسرے علاقوں کی تائید حاصل کرنے کی خاطر کافی پروپیگنڈا کی ضرورت تھی۔ کیونکہ دستور ساز اسمبلی میں اس مسئلے کو طے کرانا ان علاقوں کے نمائندوں کی تائید وحمایت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ رہا تعلیم یافتہ طبقہ تو اس کی سرد مہری اور عدم موافقت کے اسباب دوسرے ہیں۔ عوام معاشرتی، سیاسی اور دوسرے اجتماعی مسائل کو ہمیشہ بطریق مستقیم (Direct Method) سمجھتے ہیں اور جس چیز کی تلخی انہیں براہ راست عملی زندگی میں محسوس ہوتی ہے۔ اس کے متعلق رائے قائم کرنے میں انہیں کچھ زیادہ سوچنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس کے برعکس تعلیم یافتہ طبقے کے دماغ میں بہت سے پیچ ہوتے ہیں اور وہ اپنے پہلے کے قائم شدہ نظریات وتخیلات کی بناء پر مدتوں ایسی چیزوں کی تاویلات کرتا رہتا ہے۔ جن کے متعلق عوام کے جذبات واحساسات اچھے خاصے شدید ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ تعلیم یافتہ طبقے کے دماغ کے پیچ نکالنے اور اس کی رائے کو عوام کی رائے سے متحد کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمان عوام اپنے براہ راست تجربات کی بناء پر دوقومی نظریے کو بالکل ایک وجدانی طریقے سے مان رہے تھے اور یک قومی نظریہ کسی طرح ان کے ذہن کو اپیل نہ کرتا تھا۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)