۲… اس نے مطالبات کے خلاف خالص عقلی اور واقعاتی لحاظ سے کمزور اور بودے، مگر مخالف مذہب عنصر کے لئے انتہائی دلفریب دلائل پیش کر کے کسی حد تک اس امر کا تو بندوبست کر دیا کہ اس بچے کو ٹھکانے لگانے کے لئے یہ مطالبات کبھی قبول نہ کئے جائیں۔ لیکن دوسری طرف عام مسلمانوں کو مطالبات کے غلط ہونے پر مطمئن کرنے کے لئے کوئی مودا نہیں دیا۔ بلکہ اسلامی ریاست کے مسئلے سے اس قضیے کا رشتہ جوڑ کر اور پھر اسلامی ریاست کے نصب العین کے بارے میں پریشان کن بحثیں چھیڑ کر مسلم عوام کی بے چینی میں اضافہ کرنے کی خدمت انجام دی ہے۔
۳… اس نے صرف اس منفی بات پر اکتفا کر لیا کہ ان مطالبات کو رد کر دیا جائے۔ مگر خود اس قضیے کو آخر کیسے حل کیا جائے۔ اس باب میں کوئی مثبت تجویز پیش نہیں کی۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ فتنہ خیز بچہ صرف زندہ ہی نہ رہے گا۔ بلکہ شاہراہ عام پر کھڑا روتا اور بسورتا رہے گا۔ تاکہ پہلا موقع ملتے ہی کوئی نہ کوئی اور ’’فتنہ پرداز‘‘ بڑھ کر اسے گود میں اٹھالے اور پھر ایک شور محشر برپا کرادے۔
یہ ہے اس تحقیقات کا ماحصل جس پر پبلک کا روپیہ اور اس کے بہت سے کارآمد آدمیوں کا وقت بے دریغ خرچ کیاگیا۔
حرف آخر
ہم نے یہ تبصرہ اپنی سعی کی حد تک علمی نقطۂ نظر سے مرتب کیا ہے اور ارادی حد تک ہم نے کسی موقع پر یہ نہیں چاہا کہ تحقیقاتی عدالت کے فاضل جج جو ایک مسلمہ حیثیت کے مالک ہیں اور اس حیثیت کا احترام ہونا ہی چاہئے۔ یاکسی بھی متعلقہ فرد یا پارٹی کی نیت یا عزت پر کوئی حملہ کریں یا کسی کے جذبات کو تکلیف پہنچائیں۔ لیکن اس کے باوجود اختلاف کی فضا ایسی ہوتی ہے کہ جس کے زیراثر محتاط سے محتاط لکھنے والا بھی کوئی کوتاہی کر سکتا ہے اور دوسری طرف وہ بھی کرے تو بھی کسی کو بدگمانی یا شکایت ہوسکتی ہے۔ محض اس امکان کو مدنظر رکھ کر ہم اس رپورٹ اور اس پر اپنے تبصرے سے متعلق تمام کے تمام افراد اور پارٹیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ اس تبصرے میں مقصود کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے۔ بلکہ صرف واقعات کی توضیح اور علمی حقائق کی تشریح ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری اس گذارش کے بعد کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہوگی۔