جذبات بڑے نازک ہیں اور احمدیوں کے خلاف زہریلی تقریریں کرنے پر اگر احرار کو پکڑا گیا تو یہ چیز ان کو پبلک کی نگاہ میں شہید بنا دے گی۔ جس کے وہ درحقیقت مستحق نہیں ہیں۔ اس لئے میں سردست ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا مشورہ نہ دوںگا۔‘‘ (رپورٹ ص۱۶)
اسی رائے کا اعادہ ایک اور مقدمے کے بارے میں ملک صاحب پھر فروری ۱۹۵۰ء میں کرتے ہیں۔ (رپورٹ ص۱۷) اور جون ۱۹۵۰ء میں مسٹر فدا حسین چیف سیکرٹری حکومت پنجاب بھی یہی خیال ظاہر کرتے ہیں۔ (رپورٹ ص۱۸) پھر اسی ماہ جون میں ملک محمد انور اور سردار عبدالرب نشتر (اس وقت کے گورنر پنجاب) دونوں اس خیال پر متفق نظر آتے ہیں کہ احمدیوں کے معاملے میں اگر احرار پر ہاتھ ڈالا گیا تو ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو جائے گا۔ (رپورٹ ص۲۲)
مئی ۱۹۵۲ء میں میاں انور علی، ڈی آئی جی، سی آئی ڈی احرار کی کارروائیوں کے خلاف ایک طویل نوٹ پیش کرتے ہیں اور خان قربان علی خاں آئی جی پولیس اس پر یوں اظہار رائے فرماتے ہیں: ’’میں جانتا ہوں کہ یہ فیصلہ کرنا (یعنی احرار کے خلاف کاررائی کا فیصلہ) ایک مشکل کام ہے۔ مگر کسی نہ کسی کو تو یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔ مرکزی حکومت اس ذمہ داری میں حصہ لیتی نظر نہیں آتی کہ وہ کسی ایسے معاملہ میں الجھ جائے جو ایک اور مخالف جماعت کھڑی کر دینے کے بعید ترین امکانات بھی رکھتا ہو۔ خصوصاً ایسے مسئلے میں تو وہ اپنے اوپر کوئی ذمہ داری نہ لے گی۔ جو احمدیوں کے مقابلے میں تمام مسلمانوں کا مسئلہ بنایا جاسکتا ہو۔‘‘ (رپورٹ ص۵۹)
جون ۱۹۵۲ء میں حکومت یہ پالیسی بناتی ہے کہ قادیانیوں کے خلاف تقریریں کرنے پر صرف بڑے بڑے احراریوں کو پکڑا جائے اور عام احراری وغیراحراری لوگوں پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری صاحب اس پالیسی کی وجہ ایک نیم سرکاری گشتی مراسلے میں یہ بتاتے ہیں: ’’اگر ہم اپنا جال وسیع پیمانے پر پھینکتے ہیں… تو جو کچھ ہم حاصل کریں گے وہ یہ ہوگا کہ عام پبلک نظم ونسق کے خلاف بھڑک اٹھے گی۔‘‘ (رپورٹ ص۶۱)
اسی ماہ جون میں خان قربان علی خاں اپنے ایک نوٹ میں لکھتے ہیں کہ: ’’مسلم عوام میں غیرمقبول ہو جانے کا خطرہ ایک ایسے مسئلے پر احرار کو چیلنج کرنے سے لیڈروں کو روک رہا ہے۔ جس میں عوام کی تائید ان کے ساتھ نہ ہوگی۔‘‘ (رپورٹ ص۷۶)
اس خوف سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مرکزی حکومت اگرچہ مطالبات کو نامنظور کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ لیکن ۲۷؍فروری ۱۹۵۳ء تک وہ پبلک پر یہ ظاہر کرنے کے لئے تیار نہ تھی کہ اس نے انہیں مسترد کر دیا ہے۔ وہ خفیہ طور پر صوبائی حکومتوں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرتی ہے