تھے۔ اب بالعموم سارے صوبے میں تقریریں کرتے پھر رہے ہیں اور اب انہیں اپنی پوزیشن بچانے کی کوئی فکر لاحق نہیں ہے۔‘‘ (رپورٹ ص۵۶)
جولائی ۱۹۵۲ء میں خان قربان علی خان اس وقت کے آئی جی پولیس جو اس رپورٹ کے اسٹیج پر اچھے خاصے حکیم الامت کی حیثیت سے دکھائی دیتے ہیں پھر لکھتے ہیں: ’’احرار بجائے خود اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ یہ مطالبہ لے کر اٹھ سکتے۔ مگر ان میں کوئی نہ کوئی ہوشیار آدمی ہے جو اس بات کی پیش بینی کر گیا کہ نام نہاد مذہبی جماعتوں میں سے کوئی ایسی بے وقوف نہیں ہے جو ایک ایسے معاملہ میں پیچھے رہ جائے۔ جس کے بارے میں ہر مسلمان قادیانیوں کے خلاف شدید احساسات رکھتا ہے۱؎۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر مسلمان اس مسئلے پر اٹھ کھڑا ہوگا… تاہم قیام پاکستان کے بعد یہ وہ سخت ترین مسئلہ ہوگا جس پر لیگ کو اس امید پر چیلنج کیا جائے گا کہ اگر برسراقتدار حکومت ان مطالبات کو رد کر دے تو مسلمانوں کی اکثریت اس کے خلاف ہو جائے گی۔ اس صورتحال کے رونما ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اگر اس دوران میں حکومت ایسے ذرائع اور طریقے اختیار نہ کرے جو اس شرارت کا مقابلہ کر سکیں اور یہ شرارت اب پورے زور کے ساتھ شروع ہونے کو ہے۔ حکومت اس کے لئے کیا ذرائع اور طریقے تلاش یا استعمال کر سکتی ہے۔ یہ سوچنا اس کا اپنا کام ہے۔ مگر اب ذرا وقت ضائع نہ کرنا چاہئے۔ اب ایک دوڑ شروع ہو چکی ہے اور حکومت کو اب چل پڑنا چاہئے۔ اسے اپنے پاؤں تلے گھاس نہ اگنے دینی چاہئے۲؎۔‘‘
(رپورٹ ص۸۰،۸۱)
یہ تمام شہادتیں جو سرکاری دستاویزوں سے اس رپورٹ میں مسلسل نقل کی گئی ہیں صریح طور پر یہ ثابت کرتی ہیں کہ قادیانی مسئلہ پنجاب کے مسلم عوام میں ایک زندہ مسئلہ تھا۔ اپنے قدرتی اسباب کی بناء پر موجود تھا۔ لوگوں میں بے چینی پیدا کئے ہوئے تھا اور یہ بے چینی اس حد تک پائی جاتی تھی کہ جب اسے لے کر کوئی نہ اٹھا تو لوگ ایک ایسی جماعت کے پیچھے لگ گئے جس کے لیڈر تقسیم کی مخالفت کرنے کے باعث عوام سے منہ چھپاتے پھرتے رہتے تھے اور اس مسئلے کو لے
۱؎ ذرا ان سرکاری افسروں کے سوچنے کا انداز دیکھتے جائیے۔ ان لوگوں کے لئے یہ تصور تک کرنا مشکل ہے کہ دنیا میں کوئی شخص اخلاص کے ساتھ بھی کچھ کر سکتا ہے۔
۲؎ یہاں خان قربان علی خاں بھی اس رنگ میں نظر آرہے ہیں جس میں ابھی میاں انور علی دیکھے جاچکے ہیں۔ ایک سرکاری افسر کو یہ فکر لاحق ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہ مسئلہ مسلم لیگ کو ہرا نہ دے۔