جون ۱۹۵۱ء میں پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ کا یہ نوٹ ہمارے سامنے آتا ہے جو انہوں نے احرار کے اشتعال انگیز خطبات کی سرکاری رپورٹ پر لکھا تھا: ’’احرار تو بس اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ایک ایسے مسئلے کا سہارا لے کر سیاست میں اپنے لئے جگہ بنائیں جو پاکستان میں عوام کے لئے اپنے اندر نمایاں جاذبیت رکھتا ہے۔‘‘ (رپورٹ ص۳۰)
پھر اپریل ۱۹۵۲ء میں پنجاب کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس خان قربان علی خان کا ایک نوٹ ہمیں ملتا ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ: ’’احرار کی نہ کوئی اہمیت ہے نہ ان کا کوئی پروگرام ہے۔ نہ ان کے پیرو کسی بڑی تعداد میں ہیں۔ مگر وہ زور پکڑنے کے لئے کسی وقت کے منتظر ہیں۔ اسی غرض کے لئے وہ مخالف احمدیت جذبات کو بھڑکائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ آگ بجھ جائے تو احرار کے پاس پھر کوئی چیز نہیں رہتی جو لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کر سکے۔ بس یہی چیز ان کے لئے امید کا سہارا ہے۔‘‘ ان خیالات کو ثبت کرنے کے بعد خان صاحب اپنی سی آئی ڈی سے پوچھتے ہیں کہ احرار کی طاقت کتنی ہے۔ کس حد تک وہ حکومت کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اگر قادیانیت کے مسئلے کو ایک بنائے نزاع بنا کر ان کے خلاف کارروائی کی جائے تو عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔ (رپورٹ ص۵۰،۵۱) مئی ۱۹۵۲ء میں سی آئی ڈی کی طرف سے خان قربان علی خان کے استفسار کا جواب بھیجا جاتا ہے جس کے یہ فقرے لائق غور ہیں: ’’احرار نے پنجاب کے مسلم عوام میں وہ اثرات قریب قریب پھر حاصل کر لئے ہیں جنہیں وہ قیام پاکستان کی مخالفت کر کے کھو چکے تھے۔ یہ اس لئے ممکن ہوا کہ انہوں نے سیاسی حیثیت سے اپنے آپ کو مسلم لیگ میں مدغم کر دیا اور مرزائیت کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم شروع کر دی۔ پہلی چیز کی بدولت ان کو برسراقتدار پارٹی کی حمایت حاصل ہوگئی اور دوسری چیز نے ان کو مسلم عوام میں مقبول بنادیا۔ بلکہ مسلمان پبلک ہمیشہ ان لوگوں کو پسند کرتی ہے جو اسلام میں نئی نبوت کے سراٹھانے کی مخالفت کریں… بدقسمتی سے عام مسلمان پبلک کے رجحانات احمدیوں کے اس قدر خلاف ہو چکے ہیں کہ خود مسلم لیگ کے کارکن بسااوقات عوام میں اپنے اثر کو محفوظ رکھنے کے لئے ان عوامی جذبات کا ساتھ دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔‘‘ (رپورٹ ص۵۲،۵۳)
اسی مئی ۱۹۵۲ء میں ایک اور نوٹ میاں انور علی ڈی آئی جی، سی آئی ڈی لکھتے ہیں۔ جس میں وہ کہتے ہیں: ’’احرار لیڈر جو تقسیم کے بعد عوام کے سامنے آتے ہوئے ڈرتے تھے۔ آج ہیرو بن چکے ہیں۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ جو دوسال تک مظفر گڑھ کے ایک دوردراز گاؤں میں منہ چھپائے بیٹھے رہے تھے اور جلسوں میں تقریر کرنے کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا کرتے