حد تک کمزور ہے۔ دو سال پہلے تک یہ حال تھا کہ احرار لیڈر مشتبہ اور ناقابل اعتماد سمجھے جاتے تھے۔ آج یہ حال ہے کہ جہاں وہ تقریر کرتے ہیں۔ کثیر التعداد سامعین جمع ہو جاتے ہیں۔ کم ہی لوگ ہیں جو ان کی نیک نیتی میں شک کرتے ہوں یا یہ پوچھنے کی زحمت اٹھاتے ہوں کہ یہ احمدیوں کے خلاف سارا شور کس لئے ہے۔ احرار نے ایک حد تک اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے اپنی پوزیشن بحال کر لی ہے اور بہت جلدی وہ ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے نکل آئیں گے۔ جس کا مسلم لیگ کے ساتھ ہونا کچھ ضروری نہیں ہے… اگر وہ مخلص ہیں تو ان کو اپنا نظام ختم کر دینا چاہئے اور مسلم لیگی بن جانا چاہئے۱؎۔‘‘ (رپورٹ ص۲۱) چند سطر آگے جاکر میاں صاحب مرکزی حکومت کے وزیرداخلہ خواجہ شہاب الدین صاحب کی یہ رائے نقل کرتے ہیں: ’’انہوں نے بالکل بجا طور پر یہ کہا ہے کہ اگر احرار پارٹی اور اس کے کارکنوں کے خلاف اس وقت کوئی کارروائی نہ کی گئی تو اس کی مقبولیت بدرجہا زیادہ بڑھ جائے گی اور بعد میں کوئی کارروائی کرنے سے ان کو مرتبۂ شہادت نصیب ہوگا اور عملی مشکلات میں الگ اضافہ ہوگا۔‘‘ (رپورٹ ص۲۲)
اس زمانے میں پنجاب کے گورنر سردار عبدالرب نشتر اپنے ایک نوٹ میں لکھتے ہیں: ’’میں نے ماسٹر تاج الدین سے یہ بھی کہا کہ یقین کیا جاتا ہے اور ایسا سمجھنا کچھ غلط بھی نہیں ہے کہ ختم نبوت کے پردے میں جو کانفرنس احرار کر رہے ہیں۔ وہ دراصل سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہے۔ مقصد دراصل مسلمان عوام میں مقبولیت حاصل کرنا ہے جو احرار کی قبل تقسیم کارروائیوں کی وجہ سے فطرۃً ان کے خلاف ہیں۔‘‘ (رپورٹ ص۲۳)
اس کے بعد خود عدالت اس امر واقعہ کو ریکارڈ کرتی ہے کہ ۱۹۵۱ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ مگر لیگ کے ٹکٹ پر جتنے قادیانی کھڑے کئے گئے تھے۔ سب ناکام ہوگئے۔ (رپورٹ ص۲۹)
۱؎ یہ فقرہ قابل غور ہے۔ یہ پنجاب مسلم لیگ کا کوئی سیکرٹری نہیں لکھ رہا ہے۔ بلکہ حکومت پنجاب کا ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ایک سرکاری نوٹ میں اظہار خیال کر رہا ہے۔ ایسی متعصبانہ بات لیگ کا کوئی عہدہ دار بھی لکھتا تو افسوسناک ہوتی۔ مگر دنیا کی جمہوری حکومتوں میں شاید ایک پاکستان ہی وہ نرالی حکومت ہے، جس کے افسر برسراقتدار پارٹی کے کھلے کھلے جانبدار بن گئے ہیں اور اپنی سرکاری تحریرات میں اس جانبداری کے اظہار سے نہیں چونکتے۔ یہاں کی ایڈمنسٹریشن پر اظہار رائے کرتے ہوئے غالباً عدالت کے ذہن سے یہ فقرہ اتر گیا۔ ورنہ اس سے جو خطرناک نتائج نکلتے ہیں وہ قابل ذکر تھے۔