میں ایک عام جذبۂ ناراضی پیدا کر چکی تھی اور پاکستان بننے کے بعد یہ ناراضی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ (رپورٹ سے حاصل ہونے والے تأثر کے مطابق) احرار جیسی غیرمقبول جماعت جس کے لیڈر پبلک میں منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہے تھے۔ قادیانیوں کے خلاف تحریک اٹھا کر اس ناراضی کی بدولت نئے سرے سے ہر دلعزیز ہوگئے۔ حتیٰ کہ مسلم لیگ کے لیڈروں کو بھی ان کی ہمنوائی کئے بغیر چارہ نہ رہا۔
رپورٹ کے آغاز ہی میں احرار کی تاریخ بیان کرتے ہوئے عدالت ہمیں بتاتی ہے کہ ۱۹۳۱ء کے کشمیر ایجی ٹیشن کے سلسلے میں احرار اور قادیانیوں کے درمیان اختلاف رونما ہوا اور اس اختلاف کا بدلہ لینے کے لئے احرار نے قادیانی مسلم نزاع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش شروع کی۔
(رپورٹ ص۱۱،۱۲)
اس کے بعد پاکستان کے ذمہ دار حکام کی پے درپے تحریرات ہمارے سامنے آتی ہیں جو اس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ مسلمانوں میں قادیانیوں کے خلاف جذبات کا کیا عالم تھا۔ جس سے احرار کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ جون ۱۹۵۰ء میں میاں انور علی، اس وقت کے ڈی آئی جی، سی آئی ڈی ایک طویل نوٹ لکھتے ہیں۔ جس کے یہ فقرے لائق غور ہیں: ’’مجلس احرار برصغیر ہند کی تقسیم کے خلاف تھی۔ احرار لیڈروں کو کانگریس کا اعتماد حاصل تھا اور وہ کانگریسی کارکنوں کے ساتھ ہم پیالہ وہم نوالہ تھے۔ تقسیم کے بعد وہ یکایک گر گئے۔ ایک زمانے تک وہ پبلک کے غصے سے ڈرتے رہے اور وقتاً فوقتاً ایسے بیانات دیتے رہے جن سے ثابت ہو کہ وہ پاکستان کے وفادار ہیں۔ وہ بالکل اپنی پوزیشن بچانے کی فکر میں لگ گئے تھے اور انہوں نے پناہ گزینوں کے کیمپوں اور دوسرے مقامات پر امدادی خدمت انجام دینی شروع کر دی۔ ان کے ارکان منتشر ہوگئے اور کچھ دیر کے لئے پارٹی ٹوٹ گئی۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ نے لاہور چھوڑ کر مظفرگڑھ کے ایک گاؤں میں جاپناہ لی۔ شیخ حسام الدین نے اعلان کر دیا کہ ان کی سیاسی زندگی ختم ہوگئی اور انہوں نے ہندوستان وپاکستان کے درمیان تجارت کرنے کے لئے مشترک سرمائے کی ایک کمپنی کھول لی… احرار نے اپنا سارا زور احمدیوں کے خلاف صرف کرنا شروع کیا اور بڑے شرمناک طریقے سے ان پر حملے کرنے لگے۔ جب ذرا ان کا اعتماد بحال ہوا تو سرظفر اﷲ خاں پر حملے شروع ہوئے اور ان کو غدار کہا جانے لگا۔ اب احرار اپنی مدافعت نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ وہ حملہ آور کی حیثیت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘ (رپورٹ ص۱۹،۲۰)
آگے چل کر اسی نوٹ میں میاں انور علی پھر لکھتے ہیں: ’’پبلک کا حافظہ بھی افسوسناک