وجہ یہ ہے کہ وہ دور اسے پوری انسانی تاریخ میں سچی خدا پرستی، اخلاقی طہارت، اجتماعی وانفرادی خیروصلاح، سیاسی دیانت، معاشرتی انصاف، حقیقی جمہوریت اور انسانی ہمدردی ومساوات کا ایک مثالی دور نظر آتا ہے اور اسے پورا یقین ہے کہ جن اصولوں نے اس دور میں انسان کو بھلائیاں بخشی تھیں۔ وہ اصول آج بھی نہ صرف ہم کو، بلکہ پوری انسانیت کو ان بھلائیوں سے مالامل کر سکتے ہیں۔ اسی لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کی قومی ریاست ان اصولوں پر قائم ہو۔ تاکہ نہ صرف ہم ان کی برکتوں سے متمتع ہوں۔ بلکہ دنیا بھر کے لئے ذریعۂ ہدایت بھی بنیں۔ یہی یقین ہے کہ جس نے ’’پاکستان کے معنی کیا لا الہ الا اﷲ‘‘ کے نعرے پر ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو مرمٹنے پر آمادہ کر دیا اور یہی یقین ہے جو پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کو اس ریاست کے ساتھ، تمام مایوس کن حالات کے باوجود، دل وجان سے وابستہ کئے ہوئے ہے۔ آپ مسلمان کی ان امیدوں کا خاتمہ کر دیجئے جو وہ اس یقین کی بناء پر اسے ایک اسلامی ریاست دیکھنے کے لئے اپنے دل میں رکھتا ہے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ جس طرح، میاں انور علی کے بیان کے مطابق، اسلامی ریاست اور اسلامی دستور کی باتیں سن سن کر پاکستان کے ساتھ یہاں کے اعلیٰ افسروں کی دلچسپیاں سرد پڑ گئی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح اسلامی ریاست کے مطح نظر سے مایوس ہو جانے کے بعد عام مسلمانوں کی دلچسپیاں سرد ہو جائیں گی اور کوئی طاقت پھر ان کے جذبات کو کبھی گرما نہ سکے گی۔ بس بڑے بڑے افسر اور اونچے دولت مند طبقوں کے لوگ ہی پھر اس سے دلچسپی رکھنے والے رہ جائیں گے۔
مسلمان اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہے کہ اسلام کے اصول صرف انہی طاقتوں سے کامیاب نبرد آزمائی کر سکتے تھے۔ جو پہلی صدی ہجری میں اس کے خلاف صف آراء تھیں اور آج کی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کی سکت ان میں نہیں ہے۔ وہ اس وقت کی طاقتوں اور آج کی طاقتوں کے جوہری فرق کو سمجھنے میں اتنا سطحی النظر نہیں ہے۔ جتنے ہمارے بالائی طبقہ کے مغرب زدہ اصحاب ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ آج کی طاقتوں کا غلبہ اپنے نظریۂ کائنات اور تصور انسان اور فلسفۂ حیات کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ اپنے علم کائنات اور علم اشیاء اور تمدنی زندگی میں اس علم کے عملی استعمال کی وجہ سے ہے۔ ان علوم میں وہ آج کی غالب قوموں کی برتری تسلیم کرتا ہے۔ انہیں ان سے سیکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور اسلام کا کوئی عقیدہ یا قاعدہ ان کے حاصل کرنے میں مانع نہیں ہے۔ لیکن اسے یقین ہے کہ اس کا اپنا نظریۂ کائنات اور تصور انسان اور فلسفۂ حیات جس طرح پہلی صدی کے تمام نظریوں اور فلسفوں سے برتر تھا۔ اسی طرح آج کے نظریوں اور فلسفوں سے بھی برتر ہے۔ ان میں سے کوئی چیز اسے دوسروں سے لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ سائنس کی