طاقت سے اگر وہ اپنی مادی کمزوری کا مداوا کرلے اور اپنے فلسفۂ زندگی کا ایک کامیاب مظاہرہ اپنے ریاستی نظام میں کر سکے تو وہ آج بھی دنیا کو مسخر کر سکتا ہے۔ دنیا کی تسخیر کے لئے ضروری نہیں ہے کہ ایک ملک کی فوجیں دوسرے ملک پر چڑھ دوڑیں۔ کمیونزم کے لئے روس کی فوجیں چین پر نہیں چڑھ دوڑی تھیں۔ چین کو کمیونزم کے لئے خود چین ہی کے اس فعال عنصر نے فتح کیا جو اشتراکی فلسفۂ زندگی کا معتقد ہوچکا تھا۔
اسلام کی تجدید یا مرمت جیسی کچھ بھی کوئی کرنا چاہے بڑی خوشی کے ساتھ کرے۔ وہ اگر معقول دلائل کے ساتھ بتائے گا کہ اسلام کے بے جان اجزاء کون کون سے ہیں۔ کیوں بے جان ہیں اور کیسے وہ الگ کئے جاسکتے ہیں۔ نیز اس کے جاندار اجزاء اس کی رائے میں کون سے ہیں اور کس شکل میں وہ ان کو باقی رکھنا چاہتا ہے۔ تو خواہ کتنی ہی جرأت وبے باکی کے ساتھ وہ اس خدمت کو انجام دے۔ اس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ لیکن دو باتیں اس کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیں۔ ایک یہ کہ ہم مقدمات کے فیصلے تو عدالتوں سے لے سکتے ہیں۔ مگر نظریات اور فلسفے عدالتی زور کے بل پر قبول نہیں کر سکتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا ذہن ایک بات کو یا تو قرآن اور حدیث کی دلیل سے مان سکتا ہے۔ یا پھر مستقل عقلی دلائل سے۔ مگر اسلام امریکہ اور انگلستان اور ہندوستان اور بین الاقوامی برادری کے دوسرے پیشواؤں کے سامنے یہ کہہ کر رکھ دیا جائے کہ حضرات اس میں سے جو کچھ آپ کو پسند نہ آئے کاٹ دیجئے۔ جو کچھ پسند آئے باقی رکھئے اور جو کچھ آپ ضروری سمجھیں اضافہ کر دیجئے اور پھر اس اصلاح وترمیم اور حذف واضافے سے جو چیز تیار ہو اسے لاکر اسلام کے نام سے پیش کر دیا جائے۔ وہ خواہ ہمارے اعلیٰ افسروں اور اونچے دولتمند طبقے کو کتنا ہی اپیل کرے۔ عام مسلمان کے پاس اس کے لئے ایک حقارت آمیز ٹھوکر کے سوا کوئی دوسری صورت استقبال نہیں ہے۔
رہی یہ بات کہ اگر خدائی احکام ایک آدمی کو مسلمان بنایا رکھ نہیں سکتے تو ریاست کے قوانین بھی ایسا نہ کر سکیں گے۔ یہ ہمارے نزدیک ایک مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب خدائی احکام نے ایک آدمی کو مسلمان بنادیا اور پھر اس کے سامنے اسی خدا کے وہ احکام آگئے جو حکومت کی مشینری اور عدالتی نظام کے ذریعہ ہی سے نافذ ہوسکتے ہیں تو ایسی صورت میں وہ شخص کیا کرے۔ جو مسلمان بن چکا ہے اور اب مسلمان رہنا چاہتا ہے؟ آیا احکام کے اس حصے کو (نعوذ باﷲ) ردی کی ٹوکری میں ڈال دے۔ یا اس بات کے لئے زور لگائے کہ اس کی آزاد قومی ریاست ان احکام پر عمل درآمد کرے؟