دونوں قسم کے قوانین میں جب بھی تصادم ہو، دوسری قسم کے قانون کو پہلی قسم کے قانون کے آگے جھک جانا چاہئے۔ (رپورٹ ص۲۰۹)
یہ عدالت کی اپنی تصریحات ہیں اور ان کے بعد یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ: ’’اسلامی ریاست کا خیالی معشوق‘‘ کیوں مسلمان کے ذہن پر سوار ہے۔ اس کے سوار ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ پڑا ہوا اس صدیوں پرانے دور کے خواب دیکھ رہا ہے۔ جب عرب کے بدوؤں نے صحرا سے نکل کر سندھ سے اٹیلانٹک تک کے علاقے فتح کر لئے تھے اور وہ بیتاب ہے کہ کاش میں بھی اس طرح دنیا بھر کو فتح کر لوں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ عام مسلمان، خواہ کتنا ہی بگڑ چکا ہو۔ اپنے خدا اور اپنے دین کے ساتھ یہ مکاری کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ جو قانون اسے خدا کی طرف سے ملا ہے۔ اس کے صرف شخصی حصے (Personal Law) کو لے لے اور باقی پورے قانون کو ناقابل عمل قرار دے کر پھینک دے اور جن سیاسی ومعاشی اور تمدنی ادارات کا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ ان کو معطل کر کے اپنی اجتماعی زندگی کے لئے وہ لادینی (Secular) ادارات پسند کرے۔ جن کی بنیاد ہی عدالت کے اپنے بیان کے مطابق ’’آخرت سے بے پروائی پر ہے۔‘‘ (رپورٹ ص۲۰۵)
ایک عام پڑھا لکھا مسلمان جب قرآن کا ترجمہ پڑھتا ہے اور اس میں عقائد وعبادات کے ساتھ دیوانی وفوجداری قوانین، معاشی وتمدنی احکام، سیاسی معاملات کے متعلق ہدایات، جنگ اور صلح اور بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں قواعد وضوابط اس کے سامنے آتے ہیں۔ نیز جب وہ نبیﷺ اور خلفائے راشدین کی سیرتیں پڑھتا ہے اور اس کے سامنے ایک پوری ریاست کا نقشہ عملی اور قولی ہدایات واحکام کے ساتھ آجاتا ہے تو اس کے لئے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو ان سب کو برحق مانے اور اسے اپنی شخصی اور قومی زندگی کے راستے کی حیثیت سے قبول کرے۔ یا پھر اس پورے نظام کو اس کے عقائد اور عبادات سمیت کھلم کھلا رد کر دے اور سیدھی طرح کہہ دے کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔ عام آدمی بدترین اخلاقی کمزوریوں میں مبتلا ہوکر بھی کم ازکم اپنے عقیدہ وخیال میں مخلص ضرور ہوتا ہے۔ خدا کو خدا اور رسولؐ کو رسولؐ مان لینے کے بعد پھر وہ اس کے ساتھ منافقانہ چال بازیاں نہیں کر سکتا۔
پھر جس وجہ سے ایک عام مسلمان کا ذہن ترکی اور مغل دور سے لے کر عباسی واموی دور تک کی پوری تاریخ کو پھلانگ کر باربار عہد نبوت اور عہد خلافت راشدہ کی طرف جاتا ہے وار وہ ایک بلند ترین مطمح نظر کی حیثیت سے اس پر نگاہ جمائے رکھنے سے کسی طرح باز نہیں آتا۔ وہ یہ نہیں ہے کہ اس دور میں عرب کے بدو صحراؤں سے اٹھ کر روم وایران پر چھا گئے تھے۔ بلکہ اس کی