یا نہ آسکے۔ رپورٹ میں اسلام کی آئیڈیالوجی بہرحال ایک ایسے رنگ وروغن، ایک ایسے نک سک اور ایک ایسے حلئے کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ جو بھی اس کا چہرہ دیکھے۔ گھن کھا جائے۔ البتہ اسی کے ساتھ ساتھ اسلام کے حق میں رپورٹ کے یہ الفاظ ہر مسلمان کے دل میں جذبۂ تشکر پیدا کر دینے والے ہوںگے کہ وہ فرد کے اندر زندہ ہے۔ اس کی روح اور اس کی نظر میں، خدا اور انسانوں کے ساتھ اس کے تعلقات میں، گہوارے سے قبر تک کارفرماہے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ اجتماعی زندگی سے اسلام، جلاوطن رہ کر انفرادی اور نجی زندگی کا سرمایۂ رونق بنارہے۔
اب ہم ان خیالات کو بجائے خود زیربحث لانا چاہتے ہیں۔ جو اوپر کی عبارت کے پہلے پیراگراف میں اور دوسرے پیراگراف کے آخری فقروں میں پیش کئے گئے ہیں۔ ’’اسلامی ریاست کا خیالی معشوق‘‘ ہر زمانے میں مسلمان کے ذہن پر کیوں سوار رہا ہے؟ اس کی جو وجہ ہمارے دونوں فاضل ججوں نے بیان کی ہے۔ وہ بالکل ایک خیالی وجہ ہے۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ وجہ قلمبند کرتے وقت ان محترم حضرات کو شاید یاد نہ رہا ہو کہ اس ارشاد سے صرف ۲۵صفحہ پہلے اسلام کی تشریح کرتے ہوئے وہ خود کیا لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے خود اپنی تحقیق سے جو کچھ اسلام کو (علماء کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ اصلی اسلام کو) سمجھا اور بیان کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک باقاعدہ مذہب کی حیثیت سے وہ پانچ امور اپنے دائرے میں لیتا ہے۔ عقیدہ، مذہبی اعمال ورسوم، اخلاقی کردار کے قواعد، معاشی وتمدنی اور سیاسی ادارات اور قانون۔ (رپورٹ ص۲۰۵) اس کے بعد وہ خود لکھتے ہیں کہ یہ پانچوں چیزیں چونکہ وحی پر مبنی ہیں اور خدا کی طرف سے اس کا رسول انہیں لے کر آیا ہے۔ اس لئے جو بھی خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہو اسے عقیدہ قبول کرنا چاہئے۔ عبادات پر عمل کرنا چاہئے۔ اخلاقی احکام کا اتباع کرنا چاہئے۔ قانون کی پیروی کرنی چاہئے اور ان سیاسی ومعاشی اور تمدنی ادارات کو قائم کرنا چاہئے۔ جن کا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ خواہ ان میں سے کسی چیز کی وجہ اور مصلحت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ خدا کی حکمت اور اس کے تجویز کردہ نقشے میں شک کرنا کفر ہے۔ (رپورٹ ص۲۰۶)
آگے چل کر وہ پھر لکھتے ہیں کہ کوئی قاعدہ کسی معاملے کے متعلق جو قرآن یا رسول مقدس کی سنت سے نکلتا ہو۔ ہر مسلمان کے لئے واجب الاطاعت ہے۔ (رپورٹ ص۲۰۷)
آخر میں اسلامی ریاست کی جوہری خصوصیات بیان کرتے ہوئے وہ پھر بیان کرتے ہیں کہ اسلامی قانون کی بنیاد یہ اصول ہے کہ وحی اور رسولؐ مقدس کی تعلیمات بالکل بے خطا ہیں۔ قرآن اور سنت میں جو قانون پایا جاتا ہے۔ وہ تمام انسانی ساخت کے قوانین سے بالاتر ہے اور