مطالبات پیش کئے تو دوسری آئیڈیالوجی کے حامیوں نے ان کو اس نظر سے نہیں دیکھا کہ یہ مطالبات قادیانیوں کےمتعلق ہیں۔ بلکہ اس نظر سے دیکھا کہ یہ مطالبات ہماری مخالف آئیڈیالوجی کے بھالے کی انی ہیں۔ جس۱؎ کے گھستے ہی پورا بھالا اندر اتر جائے گا۔ اس لئے انہوں نے گربہ کشتن روز اوّل کے اصول پر عمل کر کے وہ کارروائی کی جس کا خاتمہ مارشل لاء پر ہوا۔ عدالت کہتی ہے کہ ایسے ہنگامے مسلسل ہوتے رہیں گے۔ اگر اس کشمکش کا ایک قطعی اور واضح فیصلہ نہ ہو اور دو میں سے ایک آئیڈیالوجی کا حتمی طور پر انتخاب نہ کر لیا جائے۔
یہ انتخاب کیسے ہو اور کون کرے؟ عدالت کی رائے میں انتخاب کا یہ کام ہمارے لیڈروں کو کرنا چاہئے۔ یعنی پاکستان کے باشندے اپنے ملک کے لئے اور اپنی اجتماعی زندگی کے لئے آئیڈیالوجی کا انتخاب نہیں کریں گے۔ بلکہ لیڈر (اور ان سے مراد بہرحال وہ سیاسی لیڈر ہیں جو اس وقت ملک کی انتظامی حکومت اور قانون ساز ودستور ساز مشینری پر قابض ہیں) انتخاب کر کے باشندوں کو تحفۃً دیں گے۔ اس مقام پر عدالت نے یہ بات نہیں کھولی کہ اگر لیڈروں کی انتخاب کردہ آئیڈیالوجی ’’اگلے وقتوں کے اس بے ہنگام آدمی‘‘ کے دھڑ میں نہ اتری جس کا نام مسلمان ہے تو کیا کیا جائے گا؟ مارمار کر اتاری گئی تو پھر وہی کشمکش سارے ہنگاموں سمیت رونما ہوسکتی ہے۔ جس کا حل یہ پیش کیاگیا ہے اور اگر اس آئیڈیالوجی کا نفاذ اس پر موقوف ہے کہ مسلمان حال اور مستقبل کا شہری بننے کے لئے خود بخوشی راضی ہو جائے تو معلوم ہوا کہ آئیڈیالوجی کا اصل انتخاب لیڈر نہیں بلکہ عام مسلمان کرے گا۔
عدالت نے اس پر اکتفاء نہیں کیا ہے کہ ہنگاموں کی جڑ کاٹنے کے لئے بس نظریاتی کشمکش ختم کرنے کا مشورہ دے دیتی اور اس کشمکش کو ختم کرنے کے لئے دو نظریوں اور فکری نظاموں میں سے ایک کے انتخاب کر لینے کا کام لیڈروں کو سونپ کر الگ ہو جاتی۔ بلکہ اس رپورٹ کے مختلف الفاظ اور اسالیب بیان سے یہ رہنمائی بھی صریحاً ملتی ہے کہ ان دونظریوں میں سے کس کو انتخاب کیاجائے اور کسے رد کر دیا جائے۔ رپورٹ میں اس رہنمائی کا موجود ہونا جس شخص کے بھی علم میں آئے گا۔ وہ بہرحال اس سوال سے دوچار ہوگا کہ کیا یہ بات بھی واقعی اس تحقیقاتی ادارے کی ذمہ داریوں میں شامل تھی کہ وہ ایک آئیڈیالوجی کے مقابلے میں دوسرے آئیڈیالوجی کو اختیار کرنے کی رہنمائی دے؟
خیر اس سوال سے کوئی دوچار ہو یا نہ ہو اور اس کا کوئی اطمینان بخش جواب سامنے آسکے
۱؎ یا عدالت کے اپنے استعارے کے مطابق ’’چھینی کا پتلا سرا‘‘ (رپورٹ ص۲۳۳)