اس تشخیص مرض اور تجویز علاج کے بعد پاکستان کے لیڈروں کی طرف روئے سخن پھرتا ہے اور ان کو بتایا جاتا ہے کہ یہاں ایسے مختلف خیالات، نظریات اور مقاصد کی کشمکش برپا ہے۔ جن کے درمیان مصالحت ممکن نہیں ہے۔ جو ہنگامے برپا ہوئے ہیں وہ اس کشمکش اور اس سے پیدا ہونے والی الجھنوں کا نتیجہ ہیں اور جب تک واضح طور پر ایک نصب العین اور اس تک پہنچنے کا ایک راستہ متعین نہ ہو جائے۔ یہ کشمکش اور الجھن برقرار رہے گی اور ایسے ہی ہنگامہ خیز خیالات پے درپے پیش آتے رہیں گے: ’’متصادم اصول اگر اپنے حال پر چھوڑ دئیے جائیں تو الجھاؤ اور بدنظمی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا اور محض ٹھنڈا کرتی رہنے والی ایک ایجنسی کوئی مفید نتیجہ پیدا نہ کر سکے گی۔ دو فکری نظاموں میں جب تصادم ہو رہا ہو۔ اس وقت اگر ہمارے لیڈر کسی ایک نظام فکر کو انتخاب کر لینے کی قابلیت اور خواہش نہ رکھتے ہوں تو تردد اور تذبذب کی حالت جاری رہے گی۔ جب تک ہم ریتی کی ضرورت ہتھوڑے سے پوری کرتے رہیں گے اور جب تک ہم اسلام کو زبردستی ان حالات ومسائل سے عہدہ برا ہونے کے لئے مجبور کرتے رہیں گے۔ جن سے عہدہ برآ ہونے کے لے وہ بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ نامرادی اور مایوسی ہمارے قدم روکتی رہے گی۔ وہ بلند پایہ دین جس کا نام اسلام ہے زندہ رہے گا۔ خواہ ہمارے لیڈر اس کو نافذ کرنے کے لئے موجود نہ ہوں۔ وہ فرد کے اندر زندہ ہے۔ اس کی روح اور اس کی نظر میں خدا اور انسانوں کے ساتھ اس کے تعلقات میں گہوارے سے قبر تک کارفرما ہے اور ہمارے سیاسی آدمیوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر خدائی احکام ایک آدمی کو مسلمان نہیں بنا،یا رکھ سکتے تو ان کے قوانین بھی ایسا نہ کر سکیں گے۔‘‘ (رپورٹ ص۲۳۱،۲۳۲)
سپرد شدہ امور تحقیق کی ضرورت سے اسلام، اسلامی نظام اور اسلامی دستور پر جو بحثیں شروع ہوئیں اور پھیلتے پھیلتے رپورٹ کا اہم ترین حصہ بن گئیں۔ وہ جب ان عبارتوں کے مرحلے تک آجاتی ہیں تو قاری ایسا محسوس کرتا ہے کہ جیسے اس کے سامنے رپورٹ کا اصل مرکزی خیال پوری طرح فاش ہورہا ہے۔ گویا یہی نکات اصل حاصل تحقیقات محسوس ہونے لگتے ہیں۔ ان بحثوں اور ان کے اس حاصل کلام کو دیکھیں تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ عدالت کی نگاہ میں یہ ہنگامے صرف اس مذہبی، معاشرتی اور معاشی وسیاسی کشمکش کا نتیجہ نہ تھے۔ جو مسلم سوسائٹی کے اندر ایک الگ امت کی تشکیل وتوسیع کی کوششوں نے پچھلے پچاس برس سے برپا کر رکھی تھی۔ بلکہ یہ دراصل اس نظریاتی کشمکش کا نتیجہ تھے جو پاکستان میں اسلامی ریاست چاہنے والوں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے درمیان برپا ہے۔
بالفاظ دیگر ایک آئیڈیالوجی کے حامیوںنے قادیانیوں کے متعلق جب اپنے