برپا ہے۱؎۔ اسلامی ریاست کا خیالی معشوق ہر زمانے میں مسلمان کے ذہن پر سوار رہا ہے اور یہ اس شاندار ماضی کی یاد کا نتیجہ ہے۔ جب کہ اسلام دنیا کے سب سے زیادہ غیرمتوقع گوشے …عرب کے صحراؤں… سے ایک طوفان کی طرح اٹھ کر دیکھتے دیکھتے دنیا پر چھا گیا اور اس نے ان خداؤں کو جو آغاز آفرنیش سے انسان پر فرمانروائی کر رہے تھے۔ ان کی اونچی گدیوں سے اتار پھینکا، صدیوں کے جمے ہوئے اداروں اور توہمات کی جڑ اکھاڑ دیں اور ان تمام تہذیبوں سے اپنے لئے جگہ خالی کرالی جو بند غلامی میں جکڑی ہوئی انسانیت پر تعمیر ہوئی تھیں… عرب کے بدوؤں کا یہی شاندار کارنامہ، جس کی نظیر دنیا نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ وہ چیز ہے۔ جو آج کے مسلمان کو ماضی کے سپنوں میں محو کئے ہوئے ہے اور وہ اس شوکت وعظمت کے لئے مشتاق ہورہا ہے۔ جو کبھی اسلام تھا وہ ایک دوراہے پر ماضی کا لبادہ اوڑھے صدیوں کا ثقیل بوجھ پیٹھ پر لادے حیران ومایوس کھڑا ہے اور سخت متائل ہے کہ کس طرف مڑے۔ اس کے دین کی وہ تازگی وسادگی جس نے کبھی اس کے ذہن کو عزم اور اعصاب کو زور عمل بخشا تھا۔ اب اس سے چھینی جاچکی ہے۔ وہ نہ اب کچھ فتح کرنے کے ذرائع رکھتا ہے۔ نہ اس کی قابلیت اس میں ہے اور نہ دنیا میں ایسے ملک ہی موجود ہیں۔ جنہیں فتح کیا جائے۔ اس کی سمجھ میں یہ بات کم ہی آتی ہے کہ آج جو طاقتیں اس کے مقابلے میں صف آراء ہیں۔ وہ ان طاقتوں سے بالکل مختلف ہیں۔ جن سے ابتدائی اسلام کو نبرد آزما ہونا پڑا تھا اور انسانی ذہن اس کے اپنے بزرگوں کے دئیے ہوئے سراغوں کی مدد سے ان نتائج تک پہنچ چکا ہے۔ جنہیں سمجھنے تک کی صلاحیت اب اس میں نہیں ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو ایک بے بسی کی حالت میں پاتا ہے اور منتظر ہے کہ کوئی آئے اور تذبذب اور الجھاؤ کی اس دلدل سے اس کو نکالے اور وہ یونہی انتظار میں بیٹھا رہے گا۔ بغیر اس کے کہ اس سے کچھ حاصل ہو۔ اسلام کی ایک ایسی تجدید کے سوا جو اس کے بے جان اجزاء کو جاندار اجزاء سے پوری جرأت کے ساتھ الگ کر ڈالے۔ کوئی چیز نہ تو اسلام ہی کو ایک عالمی تخیل (World Idea) کی حیثیت سے باقی رکھ سکتی ہے اور نہ مسلمان ہی کو الگے وقتوں کے بے ہنگام آدمی سے بدل کر حال اور مستقبل کا شہری بنا سکتی ہے۔
۱؎ یہ بات شاید نظر انداز ہوگئی کہ خود پاکستان کا قیام ہی اس چیخ پکار کی بدولت ہوا ہے اور یہ بات بھی اوجھل رہ گئی کہ اس چیخ پکار کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر قائداعظم پر ہے۔ جنہوں نے ۱۱؍اگست والی تقریر کے علاوہ اور بھی خطابات فرمائے تھے اور بیانات دئیے تھے۔