جواب… اس طرح کی نازک صورتحال میں اسے علماء سے فتویٰ دریافت کرنا چاہئے۔
اس سوال وجواب اور اس سے اخذ کردہ نتیجے پر ہمیں اس سے زیادہ کوئی کلام کرنے کی ضرورت نہیں کہ جس نظام قانون پر ہماری عدالتیں اس وقت تک عمل پیرا ہیں۔ اسی کے ایک امام کی رائے اس مسئلے میں نقل کر دیں۔ ڈائسی اپنی کتاب (Law of The Constitution) میں انگلستان کے (Rule of Law) کی تشریح کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتا ہے کہ جو کچھ والٹیر کے ساتھ فرانس میں ہوا۔ اگر کہیں وہ انگلستان میں ہوا ہوتا تو والٹیر ان تمام افسروں اور اہل کاروں پر مقدمہ چلادیتا۔ جو اس کے ساتھ ظلم کے مرتکب ہوئے تھے اور عدالت ان سب کو دھر لیتی۔ اس سلسلہ میں وہ کہتا ہے: ’’والٹیر کے دشمنوں میں سے کوئی ذمہ داری سے یہ کہہ کر بری نہ ہو سکتا تھا کہ اس نے جو کچھ کیا اپنی سرکاری حیثیت میں کیا یا اپنے افسران بالا کے حکم سے کیا۔‘‘ (رپورٹ ص۲۰۹)
’’(فرمانروائی قانون کے) اصولوں میں سے اولین یہ ہے کہ ہر غلط کار آدمی انفرادی حیثیت سے ہر اس خلاف قانون یا ناجائز فعل کے لئے جواب دہ ہے۔ جس میں وہ حصہ لیتا ہے اور ایک دوسرے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اسی اصول میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ اگر اس شخص کا فعل ناجائز ہے تو وہ اپنی صفائی میں یہ عذر پیش نہیں کر سکتا کہ اس نے وہ فعل کسی آقا یا افسر بالا کے حکم سے کیا ہے… یہ شخصی ذمہ داری کا قاعدہ اس قانونی اصول کی حقیقی بنیاد ہے کہ خود بادشاہ کا حکم بھی ایک ناجائز یا خلاف قانون فعل کے ارتکاب کے لئے وجہ جواز نہیں ہوسکتا۔‘‘
(رپورٹ ص۲۱۰،۲۱۱)
’’جن ذرائع سے عدالتوں نے دستور کے قانون کو برقرار رکھا ہے۔ وہ یہ ہیں کہ انہوں نے دو قاعدوں کی سخت پابندی کی ہے… دوسرا قاعدہ ’’غلط کاروں کی شخصی ذمہ داری‘‘ کا ہے جو اس خیال کی نفی کرتا ہے کہ ایک ماتحت کا کوئی خلاف قانون فعل اس بنا پر حق بجانب ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنے حکام بالا کے حکم سے اس کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘ (رپورٹ ص۲۸۷)
اب ہر صاحب عقل آدمی دیکھ سکتا ہے کہ اگر ایک ایک سپاہی اور ایک ایک اہل کار کا شخصی ذمہ داری کا اصول صحیح ہے تو اس سے خود بخود یہ لازم آتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو اپنی ذاتی سمجھ اور شعور سے کام لے کر یہ دیکھنا چاہئے کہ اقتدار بالا کی طرف سے اسے جو حکم دیا جارہا