۲…
اسلامی قوانین بین الاقوامی قوانین اور تصورات ونظریات سے سخت متصادم ہوںگے۔
۳…تمام دنیا کے وہ مسلمان جو غیراسلامی ریاستوں میں رہتے ہیں۔ اپنے اپنے ملک میں مشتبہ بلکہ قوم ووطن کے غدار قرار پاکر رہیں گے۔
اس بات میں عدالت کے نتائج تحقیق کو ہم علی الترتیب نمبروار لے کر ان پر تبصرہ کریں گے:
۱… دارالاسلام کی تعریف بیان کرنے کے بعد عدالت کہتی ہے کہ اس کی غیرمسلم رعیّت، یعنی ذمی، صرف اہل کتاب بن سکتے ہیں۔ بت پرست نہیں بن سکتے۔ (رپورٹ ص۲۲۱) ہمیں نہیں معلوم کہ یہ بات کہاں سے لی گئی ہے۔ فقہ اور تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ عرب کے باہر افغانستان اور ماوراء النہر سے لے کر شمال افریقہ تک کے علاقے خلافت راشدہ کے تحت آئے اور تمام مذاہب کے لوگوں کو ذمی بنایا گیا۔ خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا نہ ہوں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ غیر اہل کتاب ذمی نہیں بنائے جاسکتے تو وہ ہمیں بتائے کہ خلفائے راشدین نے آیا ان ممالک کے غیراہل کتاب باشندوں کا قتل عام کردیا تھا یا ذمی اور مسلم کے درمیان رعایا کی کوئی اور قسم ایجاد کی تھی؟
۲… ایک اسلامی ریاست نظری حیثیت سے (Intheory) اپنے ہمسایہ غیرمسلم ملک کے ساتھ ابداً برسر جنگ ہوتی ہے۔ جو ہر وقت دارالحرب بن سکتا ہے اور دارالحرب بن جانے کی صورت میں اس ملک کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ اسے چھوڑ کر اپنے مسلمان بھائیوں کے ملک میں آجائیں۔ (رپورٹ۲۲۱) اس رائے کی بنیاد کیا ہے؟ صرف یہ کہ عدالت نے پوچھا تھا۔ کیا ایک ملک جو دارالاسلام کی سرحد پر ہو اسلامی ریاست کے بالمقابل دارالحرب کی حیثیت میں نہ ہوگا؟ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ موعودی نے جواب دیا تھا۔ نہیں اگر کوئی معاہدہ نہ ہو تو اسلامی ریاست بالقوہ (Potentially) اس غیرمسلم ملک سے برسر جنگ ہوگی۔ ایک غیرمسلم ملک صرف اس صورت میں دارالحرب ہوتا ہے جب اسلامی ریاست اس کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر دے۔ اوّل تو اس جواب سے وہ نتیجہ نکالنا ہی حیرت انگیز ہے۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ اگر عدالت کو واقعی اس مسئلے کی تحقیق مطلوب تھی تو جماعت اسلامی ایک شریک کارروائی کی حیثیت سے خود اس تحقیقات میں شریک تھی۔ اس سے اس مسئلے کی تشریح کے لئے لٹریچر مانگا جاسکتا تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس مسئلے کو اپنی کتاب ’’سود‘‘ حصہ اوّل میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (سود حصہ اوّل ص۱۱۹تا۱۲۳، ص۱۳۳تا۱۴۰) اس کو دیکھ کر معلوم کیا جاسکتا تھا کہ مسئلے کی حقیقی