’’جو اصول ایک مرتد کو موت کی سزا دیتا ہے۔ وہ لازمی طور پر کفر کی علانیہ تبلیغ واشاعت پر بھی عائد ہوگا۔‘‘
’’اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کی علانیہ تبلیغ اس ریاست میں نہ ہونے دی جائے گی۔‘‘
’’ہر غیر اسلامی مذہب کی علانیہ تبلیغ کا ممنوع ہونا لازماً ایک منطقی نتیجہ کے طور پر اس تجویز سے نکلتا ہے کہ ارتداد کے جرم میں موت کی سزا دی جائے گی اور اسلام پر ہر حملے یا اسلام کے لئے ہر خطرے کا تدارک اس طرح کیا جائے گا۔ جس طرح غدر اور بغاوت کا تدارک کیا جاتا ہے اور اس کی سزا ویسی ہی دی جائے گی جیسی ارتداد کی سزا۔‘‘ (ص۲۲۱)
اثر ونتیجہ کے لحاظ سے یہ گویا ایک تنبیہ ہو جائے گی۔ تمام عیسائی مشزیوں، اور ان کی پشت پناہ مغربی قوموں کے لئے کہ ملاّ کاراج یہاں کیا رنگ لانے والا ہے۔ مگر رپورٹ کا طالب علم سکتے میں رہ جاتا ہے کہ آیا اس طرح کے دوررس اور وسیع مسائل مہمہ میں یہ طریق تحقیق کن دلائل کی بناء پر موزوں قرار پائے گا کہ ایک آدھ عالم دین اور چند دوسرے لیڈروں سے عدالتی جرح میں دس پانچ متعین اور سرسری سوالات کر کے ان کے مختلف الفاظ کو لیا جائے۔ پھر ایک رائے قائم کی جائے۔ رائے بھی ایسی کہ جسے ایک تحقیقاتی رپورٹ میں درج ہوکر تاریخی حیثیت اختیار کرنا ہے اور ہزارہا افراد تک پھیلنا ہے۔ اس طریقے کے بجائے اگر مسئلے کی باقاعدہ علمی طریقے پر تحقیقات کی جاتی تو حسب ذیل حقائق سامنے آسکتے تھے۔
۱… ارتداد اسلامی قانون میں بلاشبہ جرم ہے۔ مگر صرف اسلام سے ارتداد، نہ کہ ہر مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب میں شامل ہو جانا ایک غیرمسلم اگر ایک غیراسلامی مذہب کو چھوڑ کر کسی دوسرے غیراسلامی مذہب میں داخل ہوتا ہے تو کوئی جرم نہیں کرتا۔ فقہائے اسلام کی عظیم اکثریت اس پر متفق ہے۔
۲… ارتداد صرف اس مسلمان کے لئے جرم ہے جو خود مرتد ہو نہ کہ اس غیرمسلم کے لئے جس کے اثر سے متاثر ہوکر کوئی مسلمان مرتد ہو جائے۔ یہ بات کسی فقیہ نے نہیں لکھی ہے کہ مرتد ہونے والے کے ساتھ اس شخص کو بھی گرفتار کرنا چاہیے۔ جس کے اثر سے وہ مرتد ہوا ہے اور یہ کسی منطق کی رو سے بھی نتیجہ کے طور پر اس قانون سے نہیں نکلتی۔ عدالتیں خود آئے دن ان مجرموں کو سزا دیتی ہیں۔ جنہوں نے سینما سے جرم کے طریقے سیکھے ہیں۔ مگر ہمیں کوئی ایسی مثال نہیں ملی کہ مجرم کے ساتھ آپ نے کبھی اس فلم ساز یا سینما گھر کے اس مالک کو بھی سزا دی ہو۔ جس کے تماشے سے اس نے یہ سبق سیکھا۔