ریاست کی وفاداری کا اعلان کر سکتا ہے؟ کیا کوئی امریکی شہری ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حدود میں رہتے ہوئے امریکی شہریت چھوڑ دینے اور روسی۱؎ یا کوئی اورقومیت اختیار کر لینے کا مجاز ہے؟ کیا امریکہ میں کوئی شخص یہ اعلان کرنے کا مجاز ہے کہ میں امریکی دستور کو تسلیم نہیں کرتا۔ میرا ضمیر روسی دستور کو قبول کرتا ہے؟ کیا آپ کے اپنے قانون میں غداری (Hightreason) جرم نہیں ہے؟ کسی شخص کا یہ حق آپ کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ اس کا ضمیر اگر آپ کو برسر باطل اور آپ کی کسی ہمسایہ ریاست کو حق پر سمجھتا ہے تو وہ آپ کے مقابلے میں اس ہمسایہ ریاست کا ساتھ دے؟ اس کے جواب میں آپ یہی تو کہیں گے کہ ایک ریاست جو ایک وسیع علاقے میں لاکھوں کروڑوں انسانوں کے امن اور منظم زندگی کا ذمہ لیتی ہے۔ انفرادی خیال وضمیر کی آزادی کو اتنی اہمیت نہیں دے سکتی کہ اس پر اپنے بقا واستحکام کو قربان کر دے۔ جن ’’اجزائ‘‘ کی ترکیب سے وہ وجود میں آئی ہے ان کو وہ منتشر نہیں ہونے دے سکتی۔ ان کو وہ کل کے خلاف کشمکش کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ ان کو وہ کسی مدمقابل نظام میں جا ملنے کی آزادی نہیں دے سکتی۔ جب یہ آپ کا استدلال ریاست کے بارے میں ہے تو پھر آپ کو مذہبی دیوانگی اور عقلی فالج اور آزادی خیال کی بیخ کنی کے یہ تصورات اس وقت کیوں ستاتے ہیں۔ جب اسلام بحیثیت مذہب نہیں بلکہ بحیثیت ریاست اپنے اجزائے ترکیبی کو انتشار، غداری اور مقابل نظاموں کے ساتھ انضمام سے روکنے کے لئے ارتداد کی سزا کا قانون نافذ کرتا ہے؟
اس کے بعد وہ اندیشے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ جو عدالت نے ابتداء میں ظاہر کئے ہیں کہ اگر آج پاکستان میں اسلامی ریاست قائم ہو جائے اور علمائے کرام میں سے کوئی صدر ریاست بن جائے تو اس کے اپنے گروہ کے سوا سب دار پر چڑھا دئیے جائیں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ارتداد کی سزا مفتیوں کے فتوؤں پر نہیں بلکہ قاضی (حاکم عدالت) کے فیصلے پر دی جاتی ہے۔ ایک عالم مفتی (یعنی قانونی مشیر) کی حیثیت سے فتویٰ دیتے وقت بڑی بے احتیاطیاں کر سکتا ہے۔ لیکن اسی کو اگر قاضی بنا دیا جائے اور وہ ضابطۂ قانون کے مطابق تحقیقات کر کے فیصلہ دینے پر مجبور ہو تو وہ عدالت کی کرسی پر دارالافتاء والا کھیل نہیں کھیل سکتا اور اگر وہ ایسا کرے بھی تو اس سے اوپر کی عدالت اپیل کی سماعت میں اس کھیل کو بمشکل دہرا سکتی ہے۔ تاہم اگر صورتحال وہی پیش آجائے جس کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے تو کوئی بڑی حیرت کے قابل بات نہ ہوگی۔ جہاں سیاسی اختلافات کی بناء پر ہر گروہ دوسرے گروہ کو بے تکلف غدار کہہ دیتا ہو اور بیرونی حکومتوں سے پیسہ تک کھا جانے کا علانیہ الزام دے ڈالتا ہو۔ جہاں انتظامی حکومت کے بڑے بڑے ذمہ دار افسر