جنگ بربنائے بغاوت نہ تھی۔ بلکہ بربنائے ارتداد تھی۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اعلان عام (Proclamation) میں بالفاظ صریح مذکور ہے۔ یہ تاریخ کی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ جس کے مقابلے میں یہ کہنا محض بے معنی ہے کہ: ’’اگر ایسا ہے تو اس سے یہ اور یہ قباحت لازم آتی ہے۔‘‘ تاریخ جو واقعات بیان کرتی ہے۔ ان کی تردید اگر ہوسکتی ہے تو تاریخی ثبوت ہی سے ہوسکتی ہے۔ نہ کہ قباحتوں کے لازم آنے سے۔ اگر کسی شخص کے پاس اس کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو وہ لائے۔ ورنہ تاریخ اس انتظار میں نہ بیٹھی رہے گی کہ اس شخص کو اس کے واقعات کا پیش آنا گوارا ہو تو وہ کہے کہ یہ پیش آئے ہیں اور اس کی رائے میں ان سے کوئی قباحت لازم آتی ہو تو وہ اعلان کر دے کہ یہ پیش ہی نہیں آئے۔
اب ہمیں بتایا جائے کہ جو قرآن، سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ وہ اسلامی قانون نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ کسی کی رائے میں یہ اگر مذہبی دیوانگی ہے، عقلی فالج ہے، آزادیٔ خیال کی بیخ کنی ہے تو وہ کیوں نہ صاف صاف یہ کہے کہ اسلام کا یہ قانون میرے نزدیک غلط ہے اور میرا اسلام ہے اس دین کو جو میری رائے کے بموجب زبردستی مار مار کر لوگوں کو اپنے دائرے میں رکھتا ہے۔ مگر یہ آخر کیا پالیسی ہے کہ اسلام کی جو چیز لوگوں کے مذاق اور مزاج اور طرز فکر کے خلاف ہو اسے وہ اسلام کی چیز مان کر اس کی مذمت نہیں کرتے۔ بلکہ طرح طرح کی من گھڑت دلیلوں سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ اسلام کی چیز ہے ہی نہیں۔ یہ تو علماء نے گھڑ لی ہے۔ کسی کا یہ طرز عمل اگر علم کی کمی کی وجہ سے ہے تو افسوسناک ہے اور اگر اس کی وجہ اخلاقی جرأت کی کمی ہو تو اور بھی زیادہ افسوسناک۔
رہیں وہ قباحتیں جو رپورٹ کے فاضل مصنفین کی نگاہ میں اسلام کے اس قانون سے لازم آتی ہیں تو ان کے متعلق مختصر گذارش یہ ہے کہ ارتداد کی سزا اس صورت میں نہیں دی جاتی کہ اسلام ایک مذہب ہو، بلکہ اس صورت میں دی جاتی ہے جب کہ وہ ایک ریاست کی شکل اختیار کر لے اور ریاست کے تقاضے بنیادی طور پر ایک مذہب، ایک مدرسۂ فکر اور ایک جماعت کے تقاضوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ مذہب یا جماعت یا مدرسۂ فکر کے معاملے میں ہر شخص کو پوری آزادی ہے کہ اسے حق پائے تو قبول کرے اور جب اس کی رائے بدل جائے تو اس سے نکل جائے۔ بلکہ اس سے نکل کر اس کی مخالفت کرنا، اس کے مخالفین سے جا ملنا اور اس سے غداری کرنا بھی کوئی فوجداری جرم نہیں ہے۔ مگر کیا ریاست کے معاملے میں یہ آزادی کہیں تسلیم کی جاتی ہے؟ کیا برطانوی قوم کا کوئی فرد، یا کوئی ایسا فرد جس نے برطانوی قومیت کو قبول کر لیا ہو۔ برطانوی حدود میں رہتے ہوئے برطانوی قومیت سے نکل سکتا ہے اور اپنے ذاتی رجحان کی بناء پر کسی اور