اس آیت کے درمیان پوری چار آیتیں حائل ہیں۔ ’’ان نکثوا ایمانہم‘‘ کی ضمیر کو اٹھا کر اتنی دور لے جانے کے بجائے آخر ان لوگوں کی طرف کیوں نہ پھیرا جائے۔ جن کا ذکر اوپر کی چار آیتوں میں متصلاً بیان ہوا ہے۔
اور اگر کہا جائے کہ قبول اسلام کے لئے عہد اور ایمان کا طرز تعبیر قرآن کے لئے ایک اجنبی چیز ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں بارہا ایمان کو خدا اور بندے کے درمیان عہد اور میثاق سے تعبیر کیاگیا ہے۔ رہے ایمان (یعنی قسمیں) تو یہ لفظ خاص طور پر اس جگہ قبول اسلام کے لئے اس وجہ سے استعمال ہوا ہے کہ پرانے عہد شکن دشمن جب عین حالت جنگ میں ایمان لائیں گے تو ضرور ایمان سے اپنے ایمان کا یقین دلانے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا محض ’’عہد‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کے الفاظ سے کوئی ایسا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ جس کی بناء پر ’’ان نکثوا ایمانہم‘‘ کی ضمیر بیچ کی چار آیتوں سے جست لگا کر پانچویں آیت کے ساتھ جڑ سکے۔
اب ذرا حدیث کی طرف آئیے۔ جس کو خود ہمارے دونوں فاضل جج بھی سنت کا ریکارڈ تو بہرحال مانتے ہی ہیں۔ جن احادیث میں قتل مرتد کا حکم اور اس کے عملی نظائر بیان ہوئے ہیں۔ وہ صرف تعداد میں کثیر ہی نہیں ہیں اور صرف سند کے اعتبار سے مضبوط ہی نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے معتبر ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تمام فقہائے اسلام نے بالاتفاق ان کے مضمون کو صحیح مانا ہے اور آج تک کسی فرقے اور کسی مکتبہ فکر کے کسی فقیہ نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا ہے۔ فقہا کا ہمیشہ یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ احکامی حدیثوں کو جن سے کوئی چیز حرام یا حلال ہوتی ہو یا کوئی حق ثابت یا سلب ہوتا ہو۔ بڑی چھان بین کے بعد قبول کرتے ہیں اور خصوصاً ایسی حدیث کی تو انتہائی چھان بین کی جاتی ہے۔ جس سے کسی انسان کا خون حلال ہوتا ہو۔ اس طرح کی کسی حدیث میں اگر کوئی ذرا سا رخنہ بھی ہو تو ایک نہ ایک امام مجتہد ایسا ضرور نکل آتا ہے جو اسے رد کر دیتا ہے۔ لیکن ارتداد کی سزا کے متعلق احادیث کے حکم کو بلااستثناء سارے ہی فقہاء نے صحیح تسلیم کیا ہے اور یہ کہنے کے لئے بڑی جسارت کی ضرورت ہے کہ شروع سے آج تک تمام فقہائے امت ایک بے سروپا بات کو شریعت کے سر مڑھ گئے ہیں۔ حدیث اور سنت کے بعد اسلامی قانون میں تیسری سند اجماع ہے اور یہ اجماع صرف اسی سے ثابت نہیں ہے کہ فقہ اسلامی کے تمام مدارس ارتداد کی سزا پر متفق ہیں۔ حتیٰ کہ کسی ایک قابل ذکر فقیہ کا قول بھی اس کے خلاف نہیں ملتا۔ بلکہ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اﷲﷺ کی وفات کے چند ہی مہینے بعد تمام صحابہؓ نے بالاتفاق مرتدین کے خلاف جنگ کی اور یہ