ہیں اور دل ان کا انکار کرتا ہے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ انہوں نے اﷲ کی آیات کے مقابلے میں تھوڑی سی قیمت قبول کر لی۔ پھر اﷲ کے راستے سے روکنے لگے۔ بڑے کرتوت تھے جو وہ کرتے رہے۔ وہ کسی مؤمن کے معاملے میں قرابت اور عہدوپیماں کا لحاظ نہیں کرتے اور وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔ ہاں اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور ہم احکام کھول کر بیان کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی شروع کر دیں تو جنگ کرو۔ کفر کے سرداروں سے۔ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ شاید کہ وہ باز آجائیں۔‘‘
اس عبارت میں عرب کے مشرکوں کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ ایک وہ جن سے مسلمانوں کے معاہدات تھے اور وہ اپنے عہد پر قائم رہے۔ ان کے متعلق حکم دیا گیا کہ تم بھی ان سے وفائے عہد کرو۔ دوسرے وہ جو عہد شکنیاں کرتے رہے۔ مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی کارروائیاں کرتے رہے اور جب موقع پایا، قرابت اور عہدوپیماں کا لحاظ کئے بغیر عداوت پر تل گئے۔ اس دوسری قسم کے لوگوںکو چار مہینے کا نوٹس دیا گیا اور اعلان کر دیا گیا کہ یہ چار مہینے گذر جانے کے بعد ان کے خلاف بے محابا جنگ کی جائے گی۔ ان سے کوئی معاہدہ نہ کیا جائے گا اور وہ قتل سے صرف اسی صورت میں بچ سکیں گے جب کہ توبہ کر کے اسلام قبول کر لیں۱؎۔ اس سلسلۂ بیان کو ختم کرتے ہوئے جب یہ کہاگیا کہ: ’’اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں‘‘ تو اس سے لامحالہ اسلام قبول کرنے کا عہد اور اسی کی قسمیں مراد ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ ان سے اب اور کوئی معاہدہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے متعلق یہ بات پہلے ہی کہی جاچکی ہے کہ ان کے ساتھ کوئی عہد وپیماں کیسے ہو سکتا ہے۔ جب کہ ان کا رویہ اب تک یہ کچھ رہا ہے۔ لہٰذا آخری فقرے میں کفر کے جن سرداروں سے جنگ کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ ان سے مراد مرتدین کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
ممکن ہے کوئی شخص یہ کہے کہ ان سے مراد پہلی قسم کے مشرکین ہیں جو وفائے عہد کرتے رہے تھے اور یہ بات ان کے متعلق کہی گئی ہے کہ اگر وہ بھی عہد توڑ دیں تو ان سے بھی جنگ کرو۔ لیکن یہ تاویل اس لئے غلط ہے کہ ان مشرکین کا ذکر آخری بار جس آیت میں آیا ہے۔ اس کے اور
۱؎ یہ بات نگاہ میں رہے کہ ان کو ذمی بنانے اور ان سے جزیہ قبول کرنے تک کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ بالفاظ دیگر وہ معاہدہ بھی ان سے نہ ہوسکتا تھا۔ جو ایک اسلامی اور اس کی ذمی رعایا کے درمیان، مکتوب یا غیرمکتوب ہوا کرتا ہے۔