پھر ان آیات قرآنی کی ایک مختصر تفسیر۱؎ بیان کرنے کے بعد عدالت اس بحث کو ان الفاظ پر ختم کرتی ہے۔ ’’مگر ہمارے علماء (Chauyinism) کو اسلام سے کبھی جدا نہ کریں گے۔‘‘
ہم نے عدالت کی پوری بحث قریب قریب اس کے اپنے الفاظ میں یہاں نقل کر دی ہے۔ مقدمہ جیسا کچھ بھی ہے۔ جوں کا توں آپ کے سامنے ہے۔ اب اس کے متعلق ہماری گذارشات پر توجہ فرمائیے۔
اوّلین سوال، جس پر ۹۰فیصدی بحث کا فیصلہ منحصر ہے۔ یہ ہے کہ آیا اسلام میں واقعی ارتداد کی سزا موت ہے یا نہیں۔ یہ اصول ہر ایک کو طوعاً یا کرہاً بہرحال ماننا پڑے گا کہ قرآن جب کسی معاملے پر براہ راست اور واضح طور پر ایک حکم بیان کر دے تو اس معاملے میں اسی حکم کو اسلام کا قانون تسلیم کیا جائے گا اور اس صورت میں قرآن کے بیان کردہ وسیع اصولوں اور کلیات کو سامنے لاکر یہ نہیں کہاجاسکے گا کہ اسلامی قانون وہ نہیں، یہ ہے۔ مولانا شبیر احمد صاحب نے جس
(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) موسیٰ نے اپنی قسم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر بڑا ظلم کیا ہے۔ لہٰذا اپنے خالق کے حضور توبہ کرو۔ پھر اپنے آدمیوں کو قتل کرو۔‘‘ (یعنی ان آدمیوں کو جنہوں نے گوسالہ پرستی کی تھی)
اس واقعہ کی مزید تفصیل بائبل کی کتاب خروج، باب ۳۲، آیت۲۶تا۲۸ میں ہم کو یہ ملتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ ان میں سے ہر ایک اپنے اس رشتہ دار یا پڑوسی کو قتل کرے۔ جس نے یہ گناہ کیا تھا اور اس کی تعمیل میں اس روز ۳ہزار آدمی قتل کئے گئے۔
اگر عدالت کے استدلال کو قبول کر لیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ موسیٰ علیہ السلام پر خدا نے جو دین نازل کیا تھا۔ اس میں تو یہ مذہبی دیوانگی ضرور موجود تھی۔ مگر محمدﷺ پر اسی خدا نے جب دین نازل کیا تو وہ اپنی اس غلطی سے تائب ہوچکا تھا۔ اگرچہ اس میں اتنی اخلاقی جرأت پھر بھی پیدا نہ ہوئی کہ قرآن میں اپنے اس پچھلے کارنامے کا ذکر کرتے ہوئے ندامت یا اظہار افسوس کا ایک کلمہ کہہ دیتا۔ نعوذ باﷲ من ذالک!
۱؎ رپورٹ کا ناظر طالب علم ان تفسیری اجزاء کو دیکھ کر الجھن میں پڑ جاتا ہے کہ ایک طرف علماء بطور گواہ آتے ہیں اور متعین سوالات کے جوابات دے کر چلے جاتے ہیں۔ ان کو اپنے نقطۂ نظر کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے اور اسے رپورٹ میں لانے کا کوئی موقع حاصل نہیں۔ دوسری طرف فاضل جج قرآن کی جس تفسیر کو صحیح مان کر قلمبند کردیں۔ وہ چاردانگ عالم میں پھیلے گی۔ اس حالت میں کیا حقیقت معلوم کرنے والوں کو یہ رپورٹ مشکلات میں نہ ڈال دے گی۔