مخالفت کرتا ہے۔ مگر ارتداد کے متعلق جو اصول اس رسالے (الشہاب) میں پیش کیاگیا ہے۔ وہ آزادیٔ خیال کی جڑ ہی کاٹ دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو کوئی مسلمان پیدا ہوا ہے یا اسلام قبول کر چکا ہے۔ وہ اگرمذہب کے موضوع پر اس ارادہ سے غور کرنے کی کوشش کرے کہ اپنے لئے جو دین چاہے انتخاب کر لے گا۔ اس کے لئے سزائے موت تیار رکھی ہے۔ یہ چیز تو اسلام کو مکمل عقل فالج کا ظہور مجسم بنادیتی ہے اور یہ جو اس رسالے میں کہاگیا ہے کہ عرب کے وسیع علاقے باربار انسانی خون سے رنگے گئے تھے۔ یہ اگر صحیح ہے تو اس کے معنی تو پھر یہی ہوئے کہ جب اسلام اپنی عظمت کے بام عروج پر تھا اور عرب پر مکمل اقتدار رکھتا تھا۔ اس وقت بھی عرب میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ جنہوں نے اس مذہب کو چھوڑ دیا اور اس کے نظام میں رہنے سے مر جانا زیادہ بہتر سمجھا۱؎۔ وزیر داخلہ کے ذہن پر اس پمفلٹ کا ایسا ہی کچھ اثر پڑا ہوگا۲؎۔ جس نے انہیںاس کی ضبطی کے لئے پنجاب گورنمنٹ کو مشورہ دینے پر ابھارا… انہوں نے ضرور یہ خیال کیا ہوگا کہ رسالے کے مصنف نے جو نتیجہ نکالا ہے جس کی بنیاد زیادہ تر بائبل کے پرانے عہد نامے کی آیات ۲۶،۲۷،۲۸ میں بیان کردہ نظیر پر رکھی گئی ہے اور جسے قرآن میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر۵۴ میں محض جزوی طور پر بیان کیاگیا ہے۳؎۔ اس کا اطلاق کسی طرح اسلام سے مرتد ہونے کے معاملے پر نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا فی الواقع مصنف کی رائے غلط ہے۔ کیونکہ قرآن میں ارتداد کی سزا موت ہونے کے لئے کوئی صریح عبارت موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس دو باتیں جو قرآن میں کہی گئی ہیں۔ ایک وہ جو سورۂ کافروں کی مختصر سی چھ آیتوں میں اور دوسری وہ جو سورۂ بقرہ کی آیت ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ میں انہیں بس سمجھ لینا ہی ’’الشہاب‘‘ کی پیش کردہ غلط رائے کو رد کر دینے کے لئے کافی ہے۔‘‘
۱؎ ان الفاظ کو پڑھتے ہوئے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہئے کہ عرب کے جن حصوں میں ارتداد کا طوفان اٹھا تھا وہ زیادہ تر نبیﷺ کے آخری زمانے میں مسلمان ہوئے تھے اور ان کو سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے۔ ڈیڑھ سال سے زیادہ مدت نہ گذری تھی۔ بعد کی تاریخ میں بڑے پیمانے پر اس قسم کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ محض اکاد کا افراد کے واقعات کھوج کر ید سے مل سکتے ہیں۔
۲؎ عدالتی کارروائیوں میں معروف طریقے کے لحاظ سے قاری اس کا متوقع ہوتا ہے کہ تمام استدلال ’’ہے‘‘ کہ بنیاد پر کیا جائے گا۔ لیکن جب یہ ’’ہوگا‘‘ کی بنیاد پر شروع ہو جاتا ہے تواس کی توقع ٹھٹک کر رہ جاتی ہے۔ ۳؎ اس حوالے کی تفصیل یہ ہے کہ سورۂ بقرہ میں جہاں بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کے واقعہ کا ذکر کیاگیا ہے۔ وہاں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور یاد کرو وہ واقعہ جب کہ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)