حاجت نہیں کہ اس قاعدے کے نتائج کیا ہوںگے۔ جب کہ یہ بات آدمی کی نگاہ میں رہے کہ ہمارے سامنے پیش ہونے والے علماء میں سے دو عالم بھی ایسے نہ تھے جو مسلمان کی تعریف پر متفق ہوں۔‘‘ (ص۲۱۹)
۲… اس کے بعد عدالت مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم ومغفور کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ جو بعد میں شیخ الاسلام پاکستان ہوگئے تھے۱؎۔ ان کی کتاب ’’الشہاب‘‘ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ اس میں مولانا نے قرآن، سنت اور قیاس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام میں ارتدادکی سزا بس موت ہی ہے اور اس کے بعد اس واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ صدیق اکبرؓ اور بعد کے خلفائؓ کے زمانے میں عرب کے وسیع علاقوں کی زمین مرتدوں کے خون سے باربار سرخ ہوئی تھی۔ ہم اگرچہ اس کام پر مامور نہیں کئے گئے ہیں کہ اس اصول کی صحت یا غلطی کے متعلق کوئی رائے ظاہر کریں۔ لیکن یہ معلوم ہونے کے بعد کہ پنجاب گورنمنٹ کو اس پمفلٹ کی ضبطی کا مشورہ اس وقت کے وزیر داخلہ (خواجہ شہاب الدین صاحب) نے دیا تھا۔ ہم نے اپنی جگہ غور کیا کہ یہ مشورہ تو اس اصول کو رد کردینے کا ہم معنی تھا۔ جسے مولانا قرآن اور سنت سے ماخوذ بتارہے تھے۔ ضرور ہے کہ وزیرداخلہ نے مولانا کی اس رائے کو غلط سمجھا ہوگا۔ کیونکہ وہ خود (یعنی خواجہ شہاب الدین) بھی مذہبی معاملات میں خوب نظر رکھتے تھے۲؎۔
۳… پھر عدالت وہ دلائل معلوم کرنے کی کوشش شروع کر دیتی ہے جو خواجہ شہاب الدین کے ذہن میں یہ رائے قائم کرتے وقت ہوںگے اور حسب ذیل دلائل اس کے سامنے آجاتے ہیں۔
’’ارتداد کے لئے موت کی سزا بڑی دور رس نوعیت کے نتائج کی حامل ہے اور اسلام پر مبنی دیوانگی کے دین کا ٹھپہ لگادیتی ہے۔ جس میں ہر آزاد خیالی مستوجب سزا ہے۔ قرآن تو باربار عقل اور فکر پر زور دیتا ہے۔ رواداری کی ہدایت کرتا ہے اور مذہبی معاملات میں جبرواکراہ کی
۱؎ ہمیں اس کا علم نہیں ہوسکا کہ پاکستان میں شیخ الاسلام کا منصب کب قائم ہوا تھا اور مولانا مرحوم اس پر کس روز مقرر کئے گئے تھے۔ ان الفاظ کو اپنے ملک کے اخباری شذروں میں توہم پڑھنے کے عادی ہیں۔ لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا یہ عدالتی رپورٹ کے لئے موزوں تھے؟
۲؎ پچھلی عبارت کو پڑھتے پڑھتے توقع بڑے مضبوط الفاظ کی قائم ہوتی ہے۔ یعنی بس اب یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علم دین میں خواجہ صاحب کے سامنے مولانا کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔ لیکن رپورٹ کی عبارت ناظر کی توقعات کو پورا نہیں کرتی۔