پس اس طرح جب دوسرے مقام پر حیات عیسیٰ علیہ السلام خاص دلیل سے ثابت ہے۔ تو عیسیٰ علیہ السلام اس آیت ’’قد خلت من قبلہ الرسل‘‘ کے عموم سے باہر رہیں گے۔ لہٰذا آپ کی وفات ثابت نہ ہوئی اور مدیر پیغام صلح کی مراد پوری نہ ہوئی۔ للّٰہ الحمد!
مدیر پیغام صلح نے یہ لکھا ہے کہ ظلی وبروزی نبوت جاری ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ ظل رسول تھا۔ لہٰذا ظلی نبوت ثابت ہوگئی۔
ہم تو یہ سمجھے تھے کہ لاہوری مرزائی آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتا ہے۔ مگر ظلی وبروزی نبوت کا اجرا پڑھ کر اپنا خیال بدلنا پڑا اور یقین ہوگیا کہ:
قادیانی اور لاہوری مرزائی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ وہ غیر تشریعی نبوت کے اجراء کے قائل ہیں تو لاہوری ظلی وبروزی نبوت کے۔
حالانکہ قرآن وحدیث کی تصریحات واضح ہیں کہ آنحضرتﷺ خاتم النبیین ہیں اور آنحضرتﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو غیرتشریعی یا ظلی وبروزی نبوت کا عہدہ عطا نہیں کیا جائے گا۔ اسی پر امت کا اجماع ہے۔ نیز اگر کسی کے ظل رسول ہونے سے ظلی وبروزی نبوت کا اثبات ہوسکتا ہے تو کیا جس حدیث میں امام عادل کو ظل اﷲ کہاگیا ہے۔ اس کی رو سے ظل اﷲ بھی ہوسکتا ہے؟ مدیر پیغام صلح کا یہ عقیدہ مرزاقادیانی کے خلاف ہے۔ جو فرماتے ہیں: ’’خدا نے تمام نبوتوں اور رسالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرتﷺ پر ختم کر دیا۔‘‘
(قول مرزا الحکم ۱۷؍اگست ۱۸۹۹ئ)
نیز فرماتے ہیں ؎
ہست او خیر الرسل خیر الانام
ہر نبوت رابروشد اختتام
(سراج منیر ص۹۳، خزائن ج۱۲ ص۹۵)
ختم شد برنفس پاکش برکمال
لاجرم شد ختم ہر پیغمبرے
(براہین حصہ اوّل ص۱۰، خزائن ج۱ ص۱۹)
حاصل کلام یہ کہ سارے قرآن میں ایک بھی آیت نہیں۔ جس میں آنحضرتﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کا ذکر ہو۔ ’’من ادعی فعلیہ البیان‘‘