اسی طرح قرآن شریف میں کئی مقام پر جمع کا لفظ الف ولام کے ساتھ آیا ہے اور وہاں استغراق افراد مراد نہیں۔ بلکہ کثرت کے معنی ہیں۔ جیسے: ’’اذجاء تہم الرسل (حم سجدہ:۱۴)‘‘ اور ’’وقد خلت من قبلہم المثلٰت (الرعد:۶)‘‘ بصیغہ جمع باالف لام سب کچھ موجود ہے۔ اب صاف طور پر ثابت ہوگیا کہ آیت ’’قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران:۱۴۴)‘‘ کے یہ معنی نہیں جو پیغمبر آنحضرتﷺ سے پیشتر تھے۔ وہ سب مرگئے۔ بلکہ اس کے معنی جو لغت عرب اور قواعد نحو اور علم منطق کے لحاظ سے صحیح یہ ہیں کہ: ’’تحقیق گذر چکے پیشتر اس کے رسول۔‘‘
اگر بالفرض تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس کے معنی مرزائی مدیر پیغام صلح کی غلط تحقیق کے موافق ہیں تو بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ دلیل خاص کے مقابلے میں اس کے خلاف عام دلیل سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے۔
مثلاً سورہ دہر میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج (الدھر:۲)‘‘ {ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔}
اور چونکہ آدم علیہ السلام بھی انسان ہیں۔ اس لئے ان کی پیدائش بھی نطفے سے ثابت ہوئی۔ کیونکہ بروئے شکل اوّل اس کا قیاس اس طرح ہے۔
صغریٰ: آدم انسان ہے۔
کبریٰ: سب انسان نطفے سے پیدا ہوئے۔
نتیجہ: پس آدم بھی نطفے سے پیدا ہوئے۔
یہ بالکل باطل ہے۔ اس وہم کا ازالہ اس طرح ہے کہ:
آدم علیہ السلام کی پیدائش دوسرے مقام پر دلیل خاص سے ثابت ہے کہ مادہ مٹی سے ہوئی اور اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش نفخ روح القدس سے ہوئی۔ پس آدم وحوا اور عیسیٰ علیہم السلام جن کی پیدائش کی کیفیت خاص دلیل سے اور طرح پر ثابت ہے۔ اس آیت سورہ دھر سے مستثنیٰ رکھے جائیں گے اور ان کے علاوہ دوسرے انسانوں پر اس آیت کا حکم لگایا جائے گا کہ وہ مادہ منی سے پیدا ہوئے۔