وضع کرنا یہ فعل بھی کوئی فرد کرے تو محض ایک تجویز ہے۔ لیکن اگر ایک ادارۂ مجاز کرے تو پھر یہی قانون ہے۔
کون صاحب علم، جو اسلامی فقہ سے کچھ بھی واقفیت رکھتاہے۔ اس نوعیت کی قانون سازی کے جائز ہونے سے انکار کر سکتا ہے؟ خلفائے راشدین کے زمانے میں اہل شوریٰ یا اہل الحل والعقد جن لوگوں کو کہا جاتا تھا۔ وہ یہ تینوں کام کرتے تھے اور ان کے فیصلے قانون ہی کی حیثیت سے نافذ ہوتے تھے۔ آج یہ مصحف عثمانی جو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی قانون کی بدولت آپ تک پہنچا ہے۔ جو ایک معیاری مصحف کو نافذ کرنے اور قرآن کی تمام مختلف قرأتوں کو جو اس وقت رائج تھیں۔ منسوخ کر دینے کے متعلق حضرت عثمانؓ کے زمانے میں بنایا گیا تھا۔ شراب کی سزا۸۰ کوڑے بھی اسی طرح کی قانون سازی سے حضرت عثمانؓ کے عہد میں مقرر ہوئی تھی۔ تضمین۱؎ صانع کا حکم بھی اسی طریقے پر خلافت راشدہ میں قانون بنا تھا۔ غیراہل کتاب رعیت کو ذمی بنانے کا قانون، مفتوحہ ممالک کی اراضی پر ان کے سابق مالکوں کو بحال رکھنے کا قانون اور اسی طرح کے بے شمار قوانین اس دور میں ’’خلیفہ ان کونسل‘‘ ہی کے بنائے ہوئے تھے اور اس قانون سازی کی حیثیت ان فیصلوں کی حیثیت سے مختلف مانی جاتی تھی جو کوئی خلیفۂ راشد خود بحیثیت قاضی کرتا تھا۔ خلفائے اربعہ میں سے کسی کے بھی اس طرح کے فیصلے کو قانون تسلیم نہیںکیاگیا اور بعد کے خلفاء قضاۃ اور ائمہ مجتہدین نے ایسے بہت سے فیصلوں سے اختلاف کیا۔ مگر جو بات ایک دفعہ خلافت راشدہ کی مجلس شوریٰ میں طے ہوگئی وہ آج تک ’’قانون‘‘ مانی جاتی ہے۔ یہ باتیں اگر تفصیل کے ساتھ مولانا ابوالحسنات، یا کسی عالم سے بھی پوچھی جائیں تو یہ جواب ملنا ممکن نہیں ہے کہ اسلام میں ہر طرح کی قانون سازی مطلقاً ممنوع ہے اور کسی نوعیت کا قانون ساز ادارہ سرے سے ایک اسلامی ریاست میں ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن بدقسمتی سے محض عدالتی طریق تحقیق نے اسلامی نظام کے ایک اہم اور واضح علمی مسئلے کے بارے میں عجیب وغریب الجھاؤ اس رپورٹ میں پیش کر دیا ہے اور علماء کے ذہن کی ایک دلچسپ تصویر کھچ گئی ہے۔ اب اس کی وجہ سے اگر علماء اور علماء سے بڑھ کر خود اسلام کے بارے میں ہمارے اپنے تعلیم یافتہ طبقے (Intelligentia) اور غیر ملکی تحقیقی حلقوں میں جو پہلے سے اسلامی تصورات کے متعلق تعصب زدہ ہیں۔ گوناگوں غلط فہمیاں پیدا ہوں اور ان کے تعصبات اور زیادہ غذا اس رپورٹ
۱؎ یعنی ایک کاریگر کو اس چیز کے نقصان کا ضامن قرار دینا جو بنانے یا درست کرنے کے لئے اس کے سپرد کی گئی ہو۔ مثلاً دھوبی ان کپڑوں کا ضامن ہے جو اسے دھونے کے لئے دئیے گئے ہوں۔