پس ایک رسول یا چند رسولوں کی موت کے ذکر سے مقصود حاصل ہوسکتا ہے۔
’’اس سے پیشتر کئی رسول ہوچکے ہیں اور الف لام جنسی ہے۔‘‘
کیونکہ: ’’اسم پر الف لام داخل ہوکر ہمیشہ استغراق افراد کا فائدہ نہیں دیتا۔‘‘
پس ایک رسول یا چند رسولوں کی موت کے ذکر سے مقصود حاصل ہوسکتا ہے۔ پس الرسل کا الف لام استغراق کا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس سے پیشتر کئی رسول ہوچکے ہیں اور الف لام جنسی ہے۔ کیونکہ اسم پر الف لام داخل ہوکر ہمیشہ استغراق افراد کا فائدہ نہیں دیتا۔ بلکہ تین معانی میں سے کسی معنی میں سے ہوتا ہے۔
۱…عہد۔ ۲…استغراق۔ ۳…تعریف جنس۔
جیسا کہ علم نحو کے مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں ہے۔
الرسل کا الف لام عہدی اس لئے نہیں کہ اس سے اوپر ان رسولوں کا ذکر نہیں ہے اور اس سے استغراقی نہ ہونے کے لئے ’’من قبلہ‘‘ اور شان نزول کا مانع ہونا بیان ہوچکا ہے۔ پس باقاعدہ تردید ودوران جنسی ہوا۔ پس الف لام الرسل کا استغراق کے لئے نہ ہوا۔ چونکہ الر سل کلی ہے اور اس پر کوئی کلمہ نہیں۔ اس لئے ’’قد خلت من قبلہ الرسل‘‘ قضیہ مہملہ ہوا اور یہ معلوم ہے کہ ’’مہملہ‘‘ قوت جزئیہ میں ہوتا ہے۔ لہٰذا آیت کے معنی ہوئے۔ تحقیق گذر چکے ہیں۔ پیشتر اس سے کئی رسول۔
پس الف لام کے استغراقی نہ ہونے کے سبب سب رسول فوت شدہ ثابت نہ ہوئے۔ بلکہ بعض رسول۔ لہٰذا یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قبل نزول کی دلیل نہ ہوسکی۔
اگر کہا جائے کہ الف لام جمع کے صیغے پر جب کبھی آتا ہے تو مفید استغراق ہی ہوتا ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ: ’’ولقد اٰتینا موسی الکتاب وقفینا من بعدہ بالرسل (البقرہ:۸۷)‘‘ کو غور سے پڑھنا چاہئے کہ یہی لفظ الرسل بصیغہ جمع باالف ولام موجود ہے اور یہاں استغراق افراد قطعاً باطل ہے۔ کیونکہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ: ’’موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے کتاب دی اور اس کے پیچھے اس کے آئین پر کئی رسول بھیجے۔‘‘ نہ یہ کہ سب رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھیجے گئے۔
کیونکہ معلوم یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سب سے پہلے رسول نہیں ہیں۔ بلکہ کئی رسول آپ سے پہلے ہوئے اور کئی آپ سے بعد۔ پس ہر دو حالت میں الرسل سے مراد کئی پیغمبر ہیں نہ کہ سارے۔