جاسکتیں۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک مسموعات کی بہت سی کڑیوں پر مشتمل ہے۔ مگر اس معاملے میں کہ قانون کیا ہے۔ وہ سند کے طور پر قابل قبول (Prio- Vigori) ہیں۔ ان مجموعوں کا اصل وصف یہ نہیں ہے۔ (جیسا کہ بسا اوقات غلطی سے کہا جاتا ہے) کہ ان کے مرتب کرنے والوں نے پہلی مرتبہ یہ فیصلہ کیا کہ ان بہت سی حدیثوں میں جو اس وقت شائع تھیں۔ کون سی صحیح اور کون سی غلط تھی۔ بلکہ ان کا اصل وصف یہ ہے کہ انہوں نے ہر اس چیز کو جمع کر دیا جو اس وقت کے دین دار حلقوں میں صحیح تسلیم کی جاتی تھی۔‘‘ (ص۲۰۷)
اس کے بعد عدالت اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات بیان کرتی ہے: ’’چونکہ اسلامی قانون کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ وحی اور رسول خداﷺ غلطی سے پاک ہیں۔ اس لئے قران اور سنت میں جو قانون پایا جائے وہ تمام انسانی ساخت کے قوانین سے بالا تر ہے اور دونوں میں جب کبھی تصادم ہو۔ انسانی ساخت کے قانون کو، خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ خدائی قانون کے مقابلہ میں دب جانا چاہئے۔ بس اگر قرآن یا سنت میں کوئی ایسا قاعدہ ہو جو ہمارے موجودہ تصورات کے مطابق دستوری قانون یا بین الاقوامی قانون کے دائرے سے تعلق رکھتا ہو تو اس قاعدے کو لازماً نافذ ہونا چاہئے۔ الاّیہ کہ خود اس قاعدے میں یہ گنجائش رکھی گئی ہو کہ اس سے ہٹ کر بھی کام کیا جاسکتا ہے۔‘‘ (ص۲۰۹)
اس تمام بحث سے چند باتیں قطعی طور پر ثابت ہوتی ہیں:
اوّل… یہ کہ عدالت جس کو اسلام سمجھتی ہے وہ بھی ایک دینی سیاسی نظام (Religio-Political System) ہی ہے۔ محض ایک مذہبی نظام نہیں ہے۔ لہٰذا عدالت اور علماء کا اختلاف اس امر میں نہیں ہے کہ اسلام ایک دینی سیاسی نظام ہے یا نہیں؟ بلکہ اس امر میں ہے کہ عدالت ایک طرح کے دینی سیاسی نظام کو اسلام کہتی ہے اور علماء دوسری طرح کے نظام کا نام اسلام رکھتے ہیں۔ (اب رہی یہ بات کہ ان دونوں میں سے اصلی اسلام کون سا ہے تو اس کے متعلق فریقین میں سے جو بھی کچھ کہے گا اپنے زعم کے مطابق ایک دعویٰ ہی کرے گا) فیصلہ آخرکار عدالتوں کو نہیں بلکہ باشندگان ملک کو کرنا ہے کہ وہ کس کو اصلی اسلام مانتے ہیں۔ عدالتیں زیادہ سے زیادہ تعبیر دستور کے اختیارات سے کام لے کر اپنے فیصلے دے سکتی ہیں۔ لیکن اگر جمہور خود دستور میں ترمیم کر دیں تو حاکمان عدالت کو یا تو ان کے فیصلے کے آگے سر جھکانا ہوگا یا کرسی عدالت چھوڑنی پڑے گی۔
دوم… یہ کہ عدالت کے اپنے تصور اسلام کے مطابق بھی ایک شخص کے مسلمان