سے بتایا ہے۔ خواہ وہ انسانی عقل کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۱؎۔ چونکہ خدا سے غلطی سرزد ہونا محال ہے۔ لہٰذا کوئی بات جو خدا نے بذریعہ وحی بیان کی ہے۔ خواہ اس کا موضوع غیبی اور ماورائے طبیعت امور سے تعلق رکھتا ہو یا تاریخ، مالیات، قانون، عبادات یا کسی اور ایسی چیز سے جو انسانی خیال کے مطابق علمی تحقیقات کو راہ دے سکتی ہو۔ مثلاً انسان کی پیدائش، ارتقائ، علم کائنات اورعلم ہیت۔ بہرحال اس کو ایک قطعی صداقت کی حیثیت سے ماننا پڑے گا۔ عقل کی کسوٹی کوئی حتمی کسوٹی نہیں ہے اور اس کا (یعنی خدا کی بات کا) انکار اﷲ کی حکمت بالغہ اور اس کے بالاتر منصوبوں کا انکار ہے۔ یہ کفر ہے۔ (ص۲۰۵،۲۰۶)
اس کے بعد عدالت یہ بتاتی ہے کہ مذکورۂ بالا پانچ امور کے متعلق خدا نے جس آخری نبی کو بذریعۂ وحی علم عطا کیا تھا وہ ہمارے رسول محمدﷺ ہیں اور قرآن اسی علم پر مشتمل ہے۔ لہٰذا جو شخص اسلام پر ایمان رکھتا ہو اس کا کام بس یہ ہے کہ اس علم وحی کو سمجھے، مانے اور اس پر عمل کرے۔
(ص۲۰۶)
قرآن کی اس حیثیت کو بیان کرنے کے بعد عدالت سنت کے مسئلے کو لیتی ہے: ’’چونکہ ایک نبی کا ہر فعل اور قول من جانب اﷲ ہوتا ہے اور ہمارے نبیﷺ کے قول وعمل کی یقینا یہی حیثیت ہے۔ اس لئے غلطی سے مبرا ہونے میں اس کا درجہ وہی ہے جو خود وحی منزل من اﷲ کا ہے۔ کیونکہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں۔ مرضیٔ الٰہی کے خلاف کوئی بات کہہ اور کر نہیں سکتے۔ یہ اقوال اور افعال سنت ہیں اور ویسے ہی بے خطاء ہیں۔ جیسے قرآن، حدیث اسی سنت کا ریکارڈ ہے۔ جو ان متعدد کتابوں میں ملتا ہے۔ جنہیں مسلم علماء نے مدتہائے دراز تک طویل، محتاط اور پراز مشقت تحقیقات کے بعد مرتب کیا۔‘‘ (ص۲۰۶)
یہ ریکارڈ کسی چیز کے سنت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے میں کس حد تک مددگار ہوسکتا ہے۔ اس کے متعلق عدالت یہ رائے ظاہر کرتی ہے: ’’جدید زمانے کے قوانین شہادت کے مطابق جن میں ہمارے ہاں کا قانون شہادت بھی شامل ہے۔ احادیث سنت کی شہادت نہیں مانی
۱؎ انسانی عقل کے نہیں بلکہ کسی شخص یا بعض انسانوں کی عقل کے خلاف کہنا چاہئے تھا۔ بعض انسان بلاشبہ ایسے ہو سکتے ہیں جن کو خدا کے احکام اور ارشادات خلاف عقل نظر آئیں۔ لیکن یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ خدا کا کوئی فرمان مطلقاً انسانی عقل کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے فاضل ججوں سے یہ غلطی محض لغزش قلم کی بدولت سرزد ہوگئی ہے۔ ورنہ یہ بات بالکل واضح سی ہے۔