ہونے اور اسلام پر ایمان رکھنے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ عقائد، عبادات اور اخلاقیات ہی تک احکام الٰہی کی پیروی کو محدود نہ رکھے۔ بلکہ ان تمدنی، معاشی اور سیاسی ادارات کو بھی قائم کرے۔ جو اﷲتعالیٰ کی ہدایات پر مبنی ہوں اور خدا کے قانون کو بھی زندگی کے ان تمام شعبوں میں نافذ کرے۔ جن پر اس قانون کا دائرہ حاوی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام بہرحال افراد کا محض انفرادی مذہب بن کر رہنے پر راضی نہیں ہے۔ وہ بہرحال یہی کہتا ہے کہ اگر تم واقعی مجھ پر ایمان رکھتے ہو تو اپنی ریاست بھی میرے ہی قانون پر قائم کرو اور میرے قانون کے مقابلے میں انسانی ساخت کے قوانین کو رد کردو۔ (ظاہر ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں سے یہ کہنا کہ جہاں حکومت کی شکل اور اس کے نظام اور اس کے قوانین کا تعین تمہارے اپنے ووٹ پر منحصر ہے وہاں تم خود اپنے اختیار سے مذہب اور ریاست کا تعلق توڑ دو اور مذہب کو صرف انفرادی عقیدہ وعمل تک محدود کر کے ریاست کو کسی دوسری بنیاد پر قائم کرو۔ دراصل یہ کہنے کا ہم معنی ہے کہ تم اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کرو۔ یہ بات اگر بالفرض قائداعظم نے بھی کہی ہوتی تو کسی صاحب ایمان مسلمان کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ مسلمان کے لئے قائداعظم کی اہمیت خواہ کچھ بھی ہو۔ خدا اور اس کے رسولؐ سے بہرحال کم ہی ہے)
سوم… یہ کہ عدالت خود صریح الفاظ میں اسلام کے نظریے اور لادینی نظریے (Secular Theory) کو ایک دوسرے کی ضد تسلیم کرتی ہے۔ وہ مانتی ہے کہ اپنے اصول اور مقصد میں یہ دونون بالکل برعکس ہیں۔ ایک کی بنیاد آخرت کی مقصودیت پر ہے اور اسی پر وہ انفرادی زندگی ہی نہیں ریاست کی تعمیر بھی کرنا چاہتا ہے۔ دوسرے کی بنیاد آخرت سے بے پروائی پر ہے اور اسی پر وہ تمام سیاسی ومعاشی ادارات کی تعمیر کرتا ہے۔ اس سے یہ بات خود بخود لازم آجاتی ہے کہ اسلامی نظریے اور لادینی نظرے کو بیک وقت ایک زندگی میں جمع نہیں کیا جاسکتا۔ ایک کو اختیارکرنے کے معنی آپ سے آپ دوسرے کو چھوڑ دینے کے ہیں۔ انفرادی زندگی میں اسلام پر ایمان رکھنا اور پھر اجتماعی زندگی کے لئے لادینی نظریے کو اختیار کر لینا اس رپورٹ کے ہر سوچنے والے طالب علم کے لئے قطعاً ناقابل فہم تجویز ہے۔
چہارم… یہ کہ عدالت کی اپنی تحقیق کے مطابق بھی اسلامی نقطۂ نظر سے قانون کا اصلی اور اولین ماخذ خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت ہے۔ جس کے احکام کو تمام انسانی احکام سے بالاتر ہونا چاہئے۔ نیز عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ سنت کا ریکارڈ بہرحال احادیث