ص۲۰۵سے۲۱۰ تک خوب وضاحت کے ساتھ پیش کیاگیا ہے۔ اس بحث کا خلاصہ ہم زیادہ تر عدالت کے اپنے ہی الفاظ میں یہاں درج کرتے ہیں۔ ’’اسلام اس عقیدے پر زور دیتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی ہی وہ ایک زندگی نہیں ہے جو انسان کو دی گئی ہے۔ بلکہ ابدی زندگی اس موجودہ زندگی کے خاتمے کے بعد شروع ہوتی ہے اور دوسری دنیا میں ایک انسان کا مرتبہ ومقام منحصر ہے۔ اس عقیدے اور عمل پر جو وہ اس دنیا میں اختیار کرتا ہے۔ اب چونکہ موجودہ زندگی بجائے خود منزل مقصود نہیں ہے۔ بلکہ منزل مقصود تک پہنچنے کا راستہ اور ذریعہ ہے۔ اس لئے صرف فرد ہی کی نہیں بلکہ ریاست کی بھی یہ سعی ہونی چاہئے کہ انسانی طرز عمل وہ ہو جو ایک شخص کے لئے دوسری دنیا میں بہتر مرتبے کا ضامن ہو سکے۔ یہ نظریہ اس لادینی (Secular) نظریے کے برعکس ہے جو تمام سیاسی اور معاشی ادارات کی بنیاد ان اثرات ونتائج سے بے پروائی پر رکھتا ہے۔ جو ان کے عمل سے دوسری دنیا کی زندگی پر مترتب ہوںگے۔‘‘ (ص۲۰۵)
’’قطع نظر اس سے کہ ان فاضل علماء نے اپنے خیالات کو کس طرح بیان کیا ہے۔ ہم اسلام کا جو تصور رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسا سسٹم ہے جو ہر باقاعدہ مذہب کی طرح حسب ذیل پانچ امور پر مشتمل ہے:
۱…
عقیدہ یعنی وہ لازمی امور جن پر ایمان لایا جائے۔
۲…
عبادات یعنی وہ مذہبی رسوم واعمال جنہیں ایک شخص کو ادا کرنا چاہئے۔
۳…
اخلاقیات، یعنی اخلاقی طرز عمل کے قواعد۔
۴…
ادارات تمدنی، معاشی اور سیاسی۔
۵…
قانون۔
ان تمام امور کے متعلق قواعد واحکام کی بنیاد وحی ہے نہ کہ عقل۔ اگرچہ دونوں باہم مطابق ہو سکتی ہیں۔ ان کا باہم مطابق ہونا بہرحال ایک امر اتفاقی ہے۔ کیونکہ انسانی استدلال غلطی کر سکتا ہے اور اپنے احکام کے حتمی وجوہ صرف اس خدا ہی کو معلوم ہوتے ہیں جو لوگوں کی رہنمائی وہدایت کے لئے اپنا پیغام اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجتا ہے۔ لہٰذا آدمی کو وہ عقیدہ قبول کرنا چاہئے۔ ان عبارات پر عمل کرنا چاہئے۔ ان اخلاقیات کی پابندی کرنی چاہئے۔ اس قانون کی اطاعت کرنی چاہئے اور ان ادارات کو قائم کرنا چاہئے۔ جنہیں خدا نے وحی کے ذریعہ