’’لیکن اگر عدالت کو یہ اہتمام اس لئے کرنا ضروری معلوم ہوا ہو کہ قائداعظم کی دونوں طرح کی تقریروں کا حوالہ دینے کے بعد ناگزیر ہو جائے گا کہ یاتو بانی ٔ پاکستان کو تضاد بیانی کا الزام
دیا جائے یا پھران دونوں تصورات میں تطبیق دینے کی کوشش کی جائے اور عدالت نے ان دونوں باتوں میں سے کسی کو پسند نہ کیا ہو تو ہم صرف اتنا عرض کریں گے کہ اس صورت میں مرحوم کی ایک طرح کی تقریروں کا پردۂ اخفاء میں رہ جانا اور دوسری طرح کی تقریر کا نمایاں ہوکر ’’بانی ٔ پاکستان‘‘ کے حوالہ سے پاکستان کے بنیادی تصور کی مستند تعبیر قرار پانا خود قائداعظم کی شخصیت اور آپ کے تصورات کے بارے میں بے شمار لوگوں کے مغالطہ میں جاپڑنے کا موجب ہوسکتا ہے۔ بہرحال قائداعظم کا یہ نظریہ ہو یا نہ ہو۔ عدالت کا نظریہ یہی متبادر ہوتا ہے کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہ ہونا چاہئے۱؎۔ اس کو افراد کے ذاتی ایمان اورا عتقاد تک محدود رہنا چاہئے اور پاکستان کے سب باشندوں کو مل کر ایک ’’پاکستانی قوم‘‘ بن جانا چاہئے۲؎۔‘‘
یہ حصے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے۔ گویا کہ پاکستان کے تصور اور مطمح نظر کا سوال بھی
۱؎ آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ عدالت نے خود اسلام کی جو تشریح کی ہے۔ اس کی رو سے اسلام کا تقاضا یقینا یہی ہے کہ مذہب کا تعلق ریاست سے ہو۔ بلکہ ریاست مذہب ہی پر مبنی ہو۔ اس سے خود بخود یہ عجیب نتیجہ نکلتا ہے کہ عدالت کے نزدیک اگرچہ یہ اس کے اپنے تسلیم کردہ
اسلام کا تقاضا ہے۔ مگر یہ ایک غلط تقاضا ہے۔ جسے پورا نہ ہونا چاہئے۔
۲؎ اس ’’پاکستانی قوم‘‘ کا تصور جس طرح رپورٹ میں پیش کیا ہے۔ اسے دیکھ کر ہم سوچ میں ڈوب جاتے ہیں کہ آخر کس طرح کسی متوسطہ درجے کے صاحب عقل کی نگاہ میں یہ ممکن بات ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو رات کے ۱۲؍بجے تک جو لوگ دوقوم تھے اور اسی پاکستان کے تخیل کی حمایت اور مخالفت میں باہم لڑ رہے تھے۔ وہ ۱۵؍اگست کا پہلا منٹ شروع ہوتے ہی یکایک ایک قوم بن گئے۔ آخر کوئی ہمیں بتائے کہ اگر پاکستان مذہبی قومیت کے تصور پر نہ بنایا گیا ہوتا تو کوئی معقول وجہ تھی اور آج بھی اس کی کوئی معقول وجہ ہے کہ مشرقی بنگال کے لوگ مغربی بنگال کو چھوڑ کر پنجاب اور سندھ اور سرحد والوں کے ساتھ قومیت کا رشتہ جوڑیں اور مغربی پنجاب کے لوگ مشرقی پنجاب کو چھوڑ کر مشرقی بنگال والوں کے ساتھ ایک قومی برادری بنائیں؟ ایک قوم کا یہ تصور صریح طور پر ایک خلاف عقل اور خلاف فطرت بات ہے۔ جسے حقائق سے بالکل آنکھیں بند کر کے محض اپنے چند فکری ونظری تعصبات کی خاطر کوئی فرض کرنا چاہئے تو کرے۔ لیکن یہ توقع کس بنیاد پر رکھی جاسکتی ہے کہ دوسرے بھی اس پر ایمان لے آئیں گے۔