پھر ۱۱؍اگست والی تقریر سے ٹھیک ایک مہینہ ۱۲دن پہلے ۲۹؍جون۱۹۴۷ء کو وہ ایک بیان میں خان عبدالغفار خاں اور ڈاکٹر خان صاحب کے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ: ’’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کر دے گی۔‘‘ اور ۱۱؍اگست والی تقریر کے ساڑھے چار مہینے بعد وہ مورخہ ۲۵؍جنوری ۱۹۴۸ء کو بارایسوسی ایشن کراچی کی دعوت میں تقریر کرتے ہوئے پورے زور سے ان لوگوں کے خیال کی تردید کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔
اب، افسوس ہے کہ رپورٹ کے ذریعے ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگست والی تقریر کا حوالہ دیتے وقت اور اس سے نتائج نکالتے وقت قائداعظم مرحوم کے یہ صاف اور صریح اور باربار کے بیانات کیسے نظرانداز ہوگئے اور اس امر واقعہ کا تذکرہ کیسے چھوٹ گیا کہ جن لیڈروں نے پاکستان کا تصور ’’اسلامی شریعت پر مبنی اور اسلامی قانون کے تحت چلائی جانے والی ریاست‘‘ کی صورت میں پیش کیا تھا اس میں قائداعظم بھی شامل تھے۔ ہوسکتا ہے کہ عدالت کی نگاہ میں قائداعظم کی وہ ملاقات جو ڈون کیمبل کو دی گئی اور وہ تقریر جو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی ان تقریروں سے زیادہ اہم تھی۔ یا ان کی ناسخ تھی جو وہ پاکستان کی تحریک کے دوران میں برسوں مسلمانوں کے بڑے بڑے اجتماعات کے سامنے کرتے رہے تو سوچنا یہ پڑے گا کہ یہ پیمانہ قدر کیا بجائے خود ایک صحیح پیمانہ ہے۔ جن تقریروں کو سن کر اور جن پر اعتماد کر کے دس کروڑ مسلمانوں نے اپنی جان ومال کی بازی لگائی اور لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان ومال ہی نہیں آبرو تک قربان کر دی۔ ان کا ایک ایک لفظ قائداعظم اور مسلمانوں کے درمیان ایک عہدوپیماں کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کی قدروقیمت سے کسی ڈون کیمبل کے انٹرویو اور کسی دستور ساز اسمبلی کی تقریر کو قطعاً کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ مسلمان اس عہد وپیمان پر اعتماد کر کے قربانیاں نہ دیتے تو نہ کوئی ڈون کیمبل پاکستان کے معنی پوچھنے کے لئے قائداعظم کے پاس حاضر ہوتا اور نہ کوئی پاکستان دستور ساز اسمبلی وجود میں آتی جس میں ۱۱؍اگست والی تقریر کی جاسکتی۔ لہٰذا جو تصور اس ریاست کی پیدائش کا سبب بنا ہے۔ وہی پاکستان کا بنیادی تصور اور مطمح نظر قرار پاسکتا ہے۔ نہ کہ کوئی اور مصنوعی تصور جو قائداعظم اور مسلمانوں کے باہمی عہد وپیمان میں شامل نہ تھا اور جسے قبول کر کے کوئی ایک مسلمان بھی قیام پاکستان کے لئے اپنی نکسیر تک پھڑوانے کے لئے تیار نہ ہوسکتا تھا۔