بدل دیا جائے اور جھگڑوں کو ختم کر دیا جائے۔ ریاست کی رعایا کے ہر فرد کو آئندہ ایک شہری کی حیثیت سے رہنا ہے۔ جس کے حقوق، رعایات اور فرائض دوسروں کے برابر ہوںگے۔ بلا لحاظ اس کے کہ اس کا رنگ کیا ہے۔ اس کی ذات کیا ہے۔ اس کا عقیدہ کیا ہے اور وہ کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ لفظ ’’قوم‘‘ ایک سے زیادہ مواقع پر استعمال کیاگیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مذہب کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کو محض فرد کے لئے ایک شخصی دین واعتقاد کی حیثیت سے رہنا ہے۔‘‘ (ص۲۰۳)
ہمیں اس رپورٹ کے کسی حصے پر تبصرہ کرنے میں وہ مشکل پیش نہیں آئی ہے جسے ہم اس حصے کے تبصرے میں محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ فرض کرنا بہت مشکل ہے کہ عدالت قائداعظم کی ان تقریروں سے واقف نہ تھی جو انہوں نے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے اور اس کا نظام اسلامی شریعت پر (محض عقائد، پرسنل لاء اور اخلاقیات پر نہیں بلکہ اسلامی قوانین پر) قائم کرنے کے متعلق تقسیم سے پہلے بھی کی تھیں اور بعد میں بھی۔ ۱۱؍اگست والی تقریر سے ایک مہینہ پہلے تک بھی کی تھیں اور اس کے کئی مہینے بعد بھی۔ ان تقریروں کا ذکر خواجہ ناظم الدین اور سردار عبدالرب نشتر نے خود عدالت کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کیا تھا۔ ان تقریروں کے پورے پورے فقرے لفظ بلفظ مولانا مودودی صاحب نے اپنے دوسرے بیان میں جو عدالت کے سامنے پیش کیاگیا تھا۔ نقل کر دئیے تھے۔ ان میں سے ایک تقریر میں قائداعظم فرماتے ہیں: ’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات کے مطابق اور خود اپنے تہذیبی ارتقائ، روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکمرانی کر سکیں۔‘‘
(مورخہ۲۱؍نومبر ۱۹۴۵ء فرنٹیر مسلم لیگ کانفرنس میں)
دوسری تقریر میں ان کا ارشاد ہے: ’’ہمارا مذہب، ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی تصورات ہی وہ محرک قوتیں ہیں۔ جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھاتی ہیں۔‘‘
(مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۴۵ء فرنٹیر مسلم لیگ کی دوسری تقریر)
تیسری تقریر میں ان کے الفاظ یہ ہیں: ’’لیگ اس لئے اٹھی ہے کہ ہندوستان میں ایسی ریاستیں الگ بنوائے جہاں مسلمان عددی اکثریت میں ہوں تاکہ اسلامی قانون کے تحت ان پر حکمرانی کی جائے۔‘‘ (نومبر ۱۹۴۵ئ، اسلامیہ کالج پشاور کی تقریر)