’’یہ بات پیش کی گئی ہے کہ چند لیڈروں نے اس نصب العین کے حصول کو علانیہ اپنی زندگی کا مقصود قرار دیا تھا۔‘‘ (ص۱۸۶)
’’اور تحقیقات کے دوران میں ہر ایک شخص اس امر کو ایک حقیقت مسلمہ سمجھ کر بات کرتا رہا ہے کہ یہ مطالبات اس آئیڈیالوجی کا نتیجہ ہیں۔ جس کی بنیاد پر پاکستان میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیاگیا اور بعض حلقوں کی طرف سے اس کا وعدہ کیاگیا تھا۔‘‘ (ص۲۰۰)
’’جو اہم لیڈر پاکستان کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔ ان کی بعض تقریریں بلاشبہ یہ موقع دیتی ہیں کہ ان کو یہ معنی پہنائے جائیں۔ یہ لیڈرا سلامی ریاست یا اسلامی قوانین کے تحت چلائی جانے والی ریاست کا ذکر کرتے وقت غالباً اپنے ذہن میں ایک ایسی سیاسی عمارت کا مخلوط تصور رکھتے تھے جو اسلامی عقائد، پرسنل لائ، اخلاقیات اور اداروں پر مبنی یا ان کے ساتھ ملی جلی ہو۔‘‘
(ص۲۰۱)
دوسری طرف یہ عبارت ملاحظہ فرمائیے: ’’تقسیم سے پہلے پاکستان کی پہلی پبلک تصویر جو قائداعظم نے دنیا کے سامنے پیش کی وہ اس ملاقات کے دوران میں کھینچی گئی تھی جو انہوں نے ریوٹر کے نامہ نگار مسٹر ڈون کیمبل کو دی تھی۔ قائداعظم نے کہا کہ نئی ریاست ایک جدید طرز کی جمہوری ریاست ہوگی۔ جس میں حاکمیت باشندوں کو حاصل ہوگی اور نئی قوم کے افراد بلالحاظ مذہب وعقیدہ وذات برابر کے شہری حقوق رکھیں گے۔ جب پاکستان باقاعدہ نقشے پر آگیا تو قائداعظم نے مجلس دستور ساز پاکستان میں اپنی وہ ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر ارشاد فرمائی۔ جس میں نئی ریاست کے بنیادی اصول بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔‘‘ (ص۲۰۱)
اس کے بعد تقریر کے متعلقہ حصے لفظ بلفظ نقل کئے گئے ہیں۔ پھر ان پر یوں اظہار خیال کیاگیا ہے۔
’’قائداعظم پاکستان کے بانی تھے اور وہ موقع جب کہ انہوں نے یہ تقریر کی پاکستان کی تاریخ میں اوّلین نشان راہ تھا۔ تقریر اپنے لوگوں کو سنانے کے لئے بھی تھی اور دنیا کو سنانے کے لئے بھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ جہاں تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ وضاحت کے ساتھ اس مطمح نظر کو بیان کر دیا جائے۔ جس کے حصول کے لئے نئی ریاست کو اپنی تمام قوتیں صرف کر دینی تھیں۔ اس تقریر میں باربار ماضی کی تلخیوں کا ذکر کیاگیا ہے اور یہ اپیل کی گئی ہے کہ ماضی کو بھلادیا جائے،